اسلام آباد ،مقبوضہ کشمیر کے بابائے حریت سید علی گیلانی بانوے برس کی عمر میں انتقال کر گئے، وہ 29 ستمبر 1929کو مقبوضہ کشمیر کے ضلع بارہ مولا میں پیدا ہوئے، تعلیم کے سلسلے میں لاہور آئے اور مولانا مودودی کے حلقہ احباب میں شامل رہے، لاہور میں سید علی گیلانی نے اردو اور فارسی کی تعلیم کے ساتھ ساتھ بطور رپورٹر کام بھی کیا
سید علی گیلانی تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپس سرینگر منتقل ہوئے اور سیاست میں قدم رکھا۔ پہلی بار 1962 میں کشمیر کا ایشو اٹھانے پر گرفتار ہوئے اور 13 ماہ قید رہے۔ 1965 میں ایک بار پھر گرفتار ہوئے اور 22 ماہ جیل میں رہے، 70 اور 80 کی دہائی میں سید علی گیلانی 3 بار مقبوضہ کشمیر کی ریاستی اسمبلی کے رکن رہے۔تاہم کشمیری نوجوانوں کی طرف سے مسلح جدوجہد کاآغا زہوا تو انہوںنے 1990میں اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیدیا۔ وہ جماعت اسلامی کے چوٹی کے رہنمائوں میں سے تھے جنہوںنے متعدد بار جماعت کے امیر اور سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ 1987 میں سیاست چھوڑ کر حریت کا راستہ اپنایا۔ 1992 میں آل پارٹیز حریت کانفرنس کی بنیاد رکھی گئی تو سید علی گیلانی اس کا حصہ بن گئے ، انہوںنے تحریک آزادی میں سرگرام کردار ادا کرنے کیلئے 2003میںاپنی جماعت تحریک حریت جموںو کشمیر کی بنیاد رکھی، بھارت سے آزادی تحریک حریت کے تین بنیادی مقاصد میں سے ایک تھی،حریت پسند سرگرمیوں کے باعث 20 سال سے زائد عرصہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی، سید علی گیلانی اپنی سوانح حیات سمیت 30 کتابوں کے مصنف تھے۔ سیدعلی گیلانی پاکستان کے زبردست حامی تھے اور انہوںنے بھارتی تسلط سے کشمیر کی آزادی کیلئے اپنی زندگی وقف کر رکھی تھی ۔ اگرچہ انہیں بہت سی مشکلات کاسامنا کرنا پڑا تاہم انہوں نے کشمیر کاز کے اپنے عزم میں کوئی کمی نہیں آنے دی وہ کہا کرتے تھے کہ جموںو کشمیر پر بھارت کا تسلط سراسر بلا جواز اور غیر قانونی ہے اور کشمیری عوام کواپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دینے کیلئے رائے شماری کرائی جانی چاہیے۔ سید علی گیلانی کا پاسپورٹ 1981میں بھارت مخالف سرگرمیوں کے الزام میں ضبط کرلیا گیا تھا۔ 2006میں انہیں فریضہ حج کی ادائیگی کی اجازت دی گئی تاہم انکے بیرون جانے پر مسلسل پابندی عائد تھی ۔ اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ کی مداخلت پر حکام نے سید علی گیلانی کا پاسپورٹ ان کے بیٹے کو واپس کر دیا، 2007میں کینسر کے مرض کی تشخیص کے بعد ان کی حالت خراب ہوگئی اورانہیں سرجری کا مشورہ دیا گیا تھا۔ وہ برطانیہ یا امریکہ جانا چاہتے تاہم ان کی ویزا درخواست امریکی حکومت نے مسترد کر دی اور وہ سرجری کے لیے ممبئی چلے گئے۔6 مارچ 2014 کو سید علی گیلانی سینے میں شدید انفیکشن کے باعث بیمار ہو گئے ، کچھ دن بعد سرینگر میں اپنی رہائش گاہ پر واپس آئے۔ وہ 2010 سے مسلسل گھر میں نظر بند تھے۔ مئی 2015میں انہوںنے سعودی عرب میں اپنی بیٹی سے ملنے کے لیے پاسپورٹ کے اجرا کی درخواست دی۔ بھارتی حکومت نے اسے تکنیکی وجوہات کی بنا پر رد کر دیا ۔گزشتہ ایک دہائی سے مسلسل گھر میں نظربندی کی وجہ سے ان کی صحت بری طرح متاثر ہوئی اور بہت سی طبی پیچیدگیاں پیدا ہو گئیں۔سید علی گیلانی نے مقبوضہ علاقے میں بھارتی تسلط کی مخالفت کرنے پر کئی سال مختلف بھارتی جیلوں میں گزارے۔ انہیں قید کے دوران جسمانی اور ذہنی اذیتیں دی گئی ۔ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے گزشتہ سال سید علی گیلانی کو کشمیریوں کے حق خودارادیت کے حصول کیلئے ان کی جدوجہد کے اعتراف میں ملک کا سب سے بڑا سول اعزاز نشان پاکستان سے نوازا تھا ۔سید علی گیلانی کی وفات سے کشمیریوں نے ایک ایسا رہنما کھو دیا ہے جن کے ساتھ سارے حتی کہ مخالفین بھی محبت رکھتے تھے۔ مرحوم قائد نے ورثا میں کشمیری قوم کے ایک کروڑ چالیس لاکھ افراد کے علاوہ دو بیٹے ، بیٹیاں اور پوتے پوتیاں چھوڑے ۔