
بیجنگ :چین نے 20 سال بعد ایک مرتبہ پھر نئے عہد میں اسلحہ کنٹرول، تخفیفِ اسلحہ اور عدمِ پھیلاؤ کے عنوان سے نیا وائٹ پیپر جاری کیا ہے، جس میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران متعلقہ شعبوں میں چین کی بنیادی پالیسی، مؤقف اور عملی اقدامات کا جامع خلاصہ پیش کیا گیا ہے۔اس سے چین نے عالمی سلامتی کے انتظام میں مثبت رہنمائی اور بین الاقوامی امن و سلامتی کے تحفظ کی ایک بڑی طاقت کی ذمہ داری اور عزم کا اظہار کیا ہے۔ وائٹ پیپر میں پیش کیے گئے اعداد و شمار اور عملی اقدامات اس حقیقت کو مزید اُجاگر کرتے ہیں کہ چین کی عسکری ترقی ہمیشہ "جنگ کو روکنے کے لیے قوت کا استعمال” کے اصول سے جڑی رہی ہے۔
شفاف دفاعی تعمیر اور ذمہ دارانہ عسکری طرزِ عمل، عالمی امن کے فروغ میں چین کے کردار کو نمایاں کرتے ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ بعض ممالک چین کی اسلحہ کنٹرول پالیسیوں پر بلاجواز تنقید کرتے ہوئے ایک بار پھر "چین کا خطرہ” جیسے بیانیے کو ہوا دے رہے ہیں۔ یہ طرزِ عمل حقائق سے چشم پوشی اور چین کی دفاعی نوعیت کی پالیسیوں کی دانستہ غلط تعبیر کے مترادف ہے، جو عالمی اسلحہ کنٹرول کے عمل میں خلل ڈالنے کے برابر ہے۔چین کی عسکری پیش رفت کی بنیاد ہمیشہ دفاعی نوعیت کی پالیسی رہی ہے۔
وائٹ پیپر میں ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا گیا ہے کہ چین خالصتاً دفاعی نوعیت کی جوہری حکمتِ عملی پر کاربند ہے اور پہلے جوہری ہتھیار استعمال نہ کرنے کا اصول سختی سے ملحوظ رکھتا ہے ، جو کہ جوہری طاقت رکھنے والے ممالک میں سب سے زیادہ مستحکم اور واضح موقف سمجھا جاتا ہے۔چین نے کبھی کسی غیر ملکی سرزمین پر اپنے جوہری ہتھیار تعینات نہیں کیے اور اس کی جوہری قوت ہمیشہ کم سے کم دفاعی ضروریات تک محدود رہی ہے۔ جوہری تجربات کے معاملے میں بھی چین ان ممالک میں شامل ہے جنہوں نے سب سے کم تجربات کیے ہیں۔ چین نے نہ صرف بعض جوہری تحقیقاتی مراکز رضاکارانہ طور پر بند کیے بلکہ "پہلے جوہری حملہ نہ کرنے” سے متعلق باہمی معاہدوں کے فروغ کے لیے بھی کوششیں کی ہیں۔ چین کا یہ طرزِ عمل دراصل اس عسکری حکمت کو عملی صورت دیتا ہے، جسے کہا جاتا ہے کہ "جنگ کی صلاحیت ہی جنگ کو روکنے کی اصل ضمانت ہے”۔ یہ مؤقف نہ صرف قومی سلامتی بلکہ عالمی امن کے لیے ذمہ دارانہ رویے کی علامت ہے۔چین کے قومی دفاعی اخراجات کھلے اور شفاف حقائق کے امتحان میں پورا اترتے ہیں۔ 2024 میں چین کے دفاعی بجٹ میں 7.2 فیصد اضافہ ہوا ہے، جو لگاتار نواں سال ہے کہ اس میں سنگل ڈیجٹ اضافہ برقرار ہے، اور یہ جی ڈی پی کے 1.5 فیصد سے کم ہے، جو عالمی اوسط 2.5 فیصد اور امریکہ کے 3 فیصد سے کہیں کم ہے۔ اس کے برعکس امریکہ کا دفاعی بجٹ 886 ارب ڈالر ہے، جو دنیا کے مجموعی فوجی اخراجات کا 40 فیصد بنتا ہے، جبکہ جاپان کے دفاعی بجٹ میں بھی 16.5 فیصد کا نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے باوجود وہ چین کے معتدل اور معقول قومی دفاعی اخراجات پر تنقید کر رہے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ چین 2007 سے ہر سال اقوام متحدہ کو اپنی عسکری اخراجات کی جامع رپورٹ جمع کرا رہا ہے، جس میں اخراجات کے پیمانے، ڈھانچے اور استعمال کی تمام تفصیلات کھلے عام پیش کی جاتی ہیں۔ بڑی طاقتوں میں اس سطح کی شفافیت کی مثال نہیں ملتی۔ اس کے بالمقابل کچھ ممالک اپنی تیزی سے بڑھتی ہوئی فوجی سرگرمیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے چین کے مناسب اور معقول دفاعی اخراجات پر تنقید کرتے ہیں، جو کہ کھلا تضاد اور ناقابلِ قبول دوہرا معیار ہے۔چین کے اسلحہ کنٹرول کے تعاون کا اظہار کثیر الجہتی عمل میں اس کی مثبت سرگرمیوں سےبھی ہوتا ہے۔ وائٹ پیپر میں پہلی بار "منصفانہ، اشتراکی، متوازن اور مؤثر” اسلحہ کنٹرول کا نیا نظریہ پیش کیا گیا ہے، روایتی شعبوں میں چین نے 20 سے زیادہ کثیر الجہتی اسلحہ کنٹرول معاہدوں کی توثیق یا دستخط کیے ہیں، اور نئے شعبوں میں بیرونی خلا، سائبر اسپیس اور مصنوعی ذہانت کے عالمی انتظام کی وکالت کرتے ہوئے ترقی پذیر ممالک کے مفادات کو مدنظر رکھنے کی اپیل کی ہے۔ "چین کا خطرہ” کے نظریے کو بار بار ہوا دینا بنیادی طور پر بالادست سوچ کا پرامن ترقی کے بارے میں بے چینی کا اظہار ہے۔ امریکہ اور جاپان جیسے ممالک کی قیادت میں "کوآڈ سربراہی اجلاس” نے چین کو مرکزی موضوع بنایا ہے اور اسے جارحانہ انداز میں پیش کرتے ہیں۔ درحقیقت یہ اپنی بالادستی کو برقرار رکھنے کے لیے جان بوجھ کر گروہی تصادم پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ شاید وہ "طاقت سے جنگ کو روکنے” کی چینی حکمت کو سمجھتے نہیں ہیں، یا نہ سمجھنے کا ڈرامہ کر رہے ہیں، لیکن پوری دنیا کے سامنے حقیقت عیاں ہے کہ چین اپنی عسکری ترقی میں کبھی بیرونی توسیع کا خواہاں نہیں رہا بلکہ جارحیت پسندوں کو ڈرانے اور امن کو مضبوط بنانے کے لیے دفاعی صلاحیت کو ضروری سمجھتا ہے۔ چینی فوج کا اقوام متحدہ کے امن مشنز اور خلیج عدن میں بحری قافلوں کے تحفظ جیسے آپریشنز میں شرکت، درحقیقت "طاقت سے جنگ کو روکنے” کے تصور کی جدید مشق ہے—صرف جنگ جیتنے کی صلاحیت ہی جنگ کے بھڑکنے کو روک سکتی ہے۔بین الاقوامی سلامتی کی موجودہ صورتحال پیچیدہ اور سنگین ہے، اور کثیر الجہتی اسلحہ کنٹرول کے عمل میں اتفاق رائے کی فوری ضرورت ہے۔ متعلقہ ممالک کو زیرو سم گیم کی سوچ ترک کرنی چاہیے، چین کی قومی دفاعی پالیسی اور سلامتی تحفظات کا احترام کرنا چاہیے، اور اس وائٹ پیپر کو ایک موقع بنا کر نئے مکالمے اور مذاکرات کی بنیاد بنانا چاہیے۔ چین گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو پر عمل درآمد کرتا رہےگا اور شفاف اقدامات، ذمہ دارانہ طرزِ عمل اور دوراندیش حکمتِ عملی کے ذریعے عالمی امن کے لیے مثبت قوت فراہم کرتا رہے گا۔”چین کا خطرہ” کے نظریے کو ہوا دینے والی طاقتیں آخرکار سمجھ جائیں گی کہ چین کی طاقت کوئی خطرہ نہیں، بلکہ عالمی استحکام کا مضبوط ستون ہے۔ "طاقت سے جنگ کو روکنے” کی چینی حکمت آخرکار انسانی ہم نصیب معاشرے کے قیام کے لیے ایک پائیدار حفاظتی حصار تعمیر کرے گی ۔





