
ٹوکیو:جاپانی وزیر اعظم سانائے تاکائیچی کے تائیوان کے بارے میں غلط بیانات نے جاپانی تعلیمی و علمی حلقوں اور سماج میں شدید مخالفت کو جنم دیا ہے۔جاپانی مورخ ایزا شین ایچی نے شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سانائے تاکائیچی جنگ کے بعد پیدا ہونے والی نسل سے تعلق رکھتی ہیں، اور جاپان کے بعد از جنگ تعلیمی نظام نے انہیں صحیح تاریخی بصیرت فراہم نہیں کی۔
جاپان نے جنگ کے بارے میں صحیح معنوں میں خود احتسابی اور عکاسی نہیں کی ہے۔ جنگ کیسے شروع ہوئی،یہ کیسے آگے پھیلی، اور اس کے مراحل کیا تھے ، یہ تمام باتیں جاپانی تعلیمی نظام میں مناسب طریقے سے نہیں سکھائی جاتیں۔ موجودہ جاپانی تعلیمی نظام میں جنگی ذمہ داری کی عکاسی کا شدید فقدان ہے، جس کی وجہ سے کچھ جاپانی سیاست دان بین الاقوامی مسائل پر خطرناک حد تک لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔جاپانی وزارت دفاع کی جانب سے پرائمری اسکولوں میں تقسیم کیے گئے بچوں کے ایڈیشن "ڈیفنس وائٹ پیپر” کے حوالے سے، "آل جاپان ٹیچرز یونین” سمیت تعلیمی اداروں کے گروپوں نے یکم دسمبر کو وزارت دفاع اور وزارت تعلیم کے اہلکاروں سے براہ راست بات چیت کی، اور تنقید کی کہ یہ کتابچہ نہ صرف چین جیسے مخصوص ممالک کے خلاف خطرے کے احساس کو بڑھاوا دیتا ہے، بلکہ عملاً جاپانی سیلف ڈیفنس فورسز کی بھرتی مہم کا حصہ ہے، جو بچوں کے حقوق کے تحفظ سے متعلق اقوامِ متحدہ کے کنونشن کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔ ادھر ایک حالیہ تقریر میں، جاپانی پارلیمانی ممبر یاموتو تارو نے کہا کہ سانائے تاکائیچی کا یہ دعویٰ کہ چین نے "حد سے زیادہ” رد عمل کا اظہار کیا، دراصل چین کا مسئلہ نہیں، بلکہ جاپانی حکومت کی طرف سے دیے گئے بیانات سفارتی سطح کے سرکاری موقف سے ہٹ کر ہیں۔ جاپان کا فوجی توسیع اور پڑوسی ممالک کے ساتھ جارحانہ رویہ صرف اپنے لیے مشکلات پیدا کرے گا۔ موجودہ حالات میں سانائے تاکائیچی کی غلطیوں پر پردہ ڈالنا جاپان کے قومی مفادات کو نقصان پہنچائے گا۔





