بین الاقوامی

بین الاقوامی انصاف اور انسانی ضمیر کی آواز کا جاننا اور سمجھنا ضروری ہے ، چینی میڈیا

بیجنگ : چین کے وزیر خارجہ وانگ ای نے اسٹریٹجک مکالمے کے لیے تین وسطی ایشیائی ممالک کا دورہ کیا۔ دورے کے بعد، وانگ ای نے ایک انٹرویو میں جاپانی وزیر اعظم کے بیانات پر کہا کہ جاپان کی موجودہ رہنما نے حال ہی میں تائیوان کے امور میں فوجی مداخلت کی کوشش کا غلط پیغام دیا ہے جو انتہائی غلط ہے۔یہ باتیں نہ صرف ایسی باتیں ہیں جو انہیں نہیں کہنی چاہئیں بلکہ ان بیانات سے وہ اس سرخ لکیر کو بھی عبور کر رہی ہیں جسے چھوا نہیں جانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ان بیانات پر چین کا مضبوط اور سخت ردعمل نہ صرف قومی خودمختاری کے تحفظ بلکہ بین الاقوامی انصاف اور انسانی ضمیر کے دفاع کو بھی ظاہر کرتاہے ۔میجی اصلاحات کے بعد، جاپان نے جارحیت کر کے ہمسایہ ممالک کی سرزمین پر قبضہ کیا ،

جس سے نہ صرف ایشیائی ممالک کے عوام کو شدید نقصان پہنچا بلکہ خود جاپان کو بھی بھاری قیمت چکانا پڑی۔ بیکٹیریولوجیکل ہتھیاروں کے تجربات، نان جنگ قتل عام، ” سب کو مار دو، سب جلا دو، سب لوٹ لو ” کی جنگی پالیسی اور "کمفرٹ ویمن” جیسے سنگین اور بے شمار جرائم کی فہرست طویل ہے ۔ شکست کے بعد، جاپانی فوج کو مکمل طور پر غیر مسلح کیا گیا اور اسے دوبارہ مسلح کرنے کے لیےاسلحے کی صنعت کی اجازت بھی نہیں دی گئی ۔یہ فیصلے جاپان کی جارحانہ جنگ کی شدت اور ناقابل معافی جرائم کی مکمل عکاسی کرتے ہیں ۔جاپان کی شکست کے بعد، کچھ جنگی مجرموں کا بین الاقوامی فوجی ٹریبونل فار دی فار ایسٹ میں مقدمہ چلایا گیا، لیکن جنگی جرائم اور پالیسی سازوں کا مکمل طور پر احتساب نہیں کیا گیا۔تاریخ پر گہرے غور و فکر کے بجائے، جاپانی دائیں بازو کی قوتوں نے جان بوجھ کر اپنے جنگی جرائم کو بھلا دیا ، حتیٰ کہ جنگی مجرموں کی شان و شوکت بڑھائی ، نذرانوں اور پھولوں کے گلدستوں کے ذریعے عسکریت پسندی کو زندہ کرنے کی کوشش کی ، جو بین الاقوامی انصاف کے لیے کھلا چیلنج اور انسانیت کی شرمناک توہین ہے۔ اس حوالے سے چینی وزیر خارجہ نے کہا کہ "اگر جاپان اپنی راہ پر چلنے پر اصرار کرتا ہے اور سنگین سے سنگین تر غلطیاں کرتا ہے، تو انصاف کے حامی تمام ممالک اور عوام کو جاپان کے تاریخی جرائم کے دوبارہ احتساب کا حق ہے، اور تمام ممالک اور عوام پر جاپانی عسکریت پسندی کے دوبارہ عروج کو روکنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔”آج بھی دنیا کے کچھ خطوں میں بد امنی جاری ہے، اور انسانی سانحات اب بھی رونما ہو رہے ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ایشیائی عوام نے امن اور ترقی کی قیمت اپنے خون سے ادا کی ہے ۔

ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ تاریخی سانحات کو دہرایا نہیں جا سکتا ۔ سانحات کے دہرائے جانے سے بچنے کے لیے، ہمیں پہلے تاریخ کو درست طور پر سمجھنا اور اس پر غور کرنا ہوگا۔ جاپان میں کچھ دائیں بازو کی قوتیں، بشمول سانائے تاکائیچی، جنگی مجرموں کو نذرانے اور پھول پیش کرتی رہی ہیں،سو ،سوال اٹھتا ہے کہ وہ کیا چاہتی ہیں ؟ کیا ان کا یہ عمل ان مجرموں کا شکریہ ادا کرنے کے لیے تھا جنہوں نے جنگ اور نوآبادیات کے ذریعے بے شمار وسائل اور دولت لوٹی ، جس سے جاپان کو تیزی سے صنعتی ترقی کی راہ پر چلنے میں مدد ملی ؟ سانائے تاکائیچی نے نان جنگ قتل عام اور "کمفرٹ ویمن” جیسے تاریخی حقائق کی کھل کر تردید کی ، اور یہاں تک دعویٰ کیا ہے کہ چین میں 918 واقعے کے بعد جاپان کی جارحیت ” اپنے دفاع کی جنگ” تھی۔ بے شمار تاریخی تصاویر کے سامنے ،کیا وہ جان بوجھ کر نا بینا بنی ہوئی ہیں ؟ تاریخی سانحات میں زندہ بچ جانے والوں کی گواہیوں کے ہوتے ہوئے بھی کیا وہ سن نہیں سکتیں ؟ اور پھر، کون سا ایسا ملک ہے جو اپنا دفاع دوسرے ملک کی سرزمین سے شروع کرتا ہے ؟ ان مضحکہ خیز بیانات اور عمل کے پیچھے ، جاپان کی انتہائی دائیں بازو کی قوتوں کی تاریخی حقائق کے خلاف ضد ، اور بے گناہوں کے خون سے آلودہ مسخ شدہ اور باقی رہ جانے والا عسکریت پسندی کا نظریہ ہے،جس کے خلاف تمام ممالک کو ہمہ وقت ہوشیار رہنا چاہیے۔تائیوان چین کا علاقہ ہے جو کسی زمانے میں جاپانی قبضے میں رہا ۔ تائیوان کی جاپانی تسلط سے آزادی دنیا کی فاشزم کے خلاف فتح کا نتیجہ ہے۔دنیا کی اس فتح کے بعد کی صورتحال اور قوانین کی پاسداری جاپان کی بین الاقوامی ذمہ داری ہے جس نے جارحانہ جنگ کا آغاز اور انصاف کے ساتھ کھڑی قوتوں کے ہاتھوں عبرتناک شکست کھا ئی۔ تائیوان کے امور پر، جاپانی حکومت چین جاپان چار سیاسی دستاویزات میں وعدے کر چکی ہے۔ جیسا کہ چینی وزیر خارجہ نے کہا، "انسان اور ملک بغیر اعتبار کے دنیا میں نہیں رہ سکتے ۔ جاپان کو اپنے وعدے کی پاسداری کرنی چاہیے اور انتہائی دائیں بازو کی قوتوں کو جنگل کے قوانین کو ترک کرنا چاہیئے کیوں کہ ان قوانین کو تاریخ فرسودہ ثابت کر چکی ہے ۔دوسری عالمی جنگ کے بعد کئی دہائیوں کی کوششوں سے ، جاپانی لوگوں نے دنیا کے سامنے عاجزی اور شائستگی کا تاثر چھوڑا ہے۔ لیکن معمولی آداب کو جاننا کافی نہیں بلکہ بین الاقوامی انصاف اور انسانی ضمیر سے متعلق بڑی اقدار کو بھی سمجھنا ضروری ہے۔ اہم تاریخی مسائل پر، جاپانی سیاستدانوں کو اپنی غلطیوں پر غور کرنا چاہیے اور وعدوں کی پاسداری کرنی چاہیے تاکہ وہ دوبارہ ایشیائی عوام کا اعتماد حاصل کر سکیں۔ چینی عوام امن پسند ہیں، لیکن قومی خودمختاری اور علاقائی سالمیت جیسے بڑے اور اہم مسائل پر وہ کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے اور نہ ہی اس پر اپنے اصولوں سے پیچھے ہٹیں گے ۔ عسکریت پسند قوتوں کے دوبارہ سر اٹھانے کے خطرہ کے سامنے، تمام ممالک کے عوام کو بھی بہت ہو شیار رہنے کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی انصاف اور انسانی ضمیر کی آواز کا دفاع صرف ایک نعرہ نہیں، بلکہ ہماری زندگی کی حفاظت کا ضامن ہے ۔

Back to top button

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker