بین الاقوامی

غزہ میں جنگ بندی کو چیلنجز کا سامنا ہے

حماس کے امریکی "20 نکاتی منصوبے” کے جواب کے بعد مختلف فریقوں نے غزہ میں جنگ بندی کے مذاکرات کو فعال طور پر فروغ دیا۔ تاہم، اسرائیل کے اندر اختلافات اس نازک وقت پر مزید بڑھ گئے ہیں۔ انتہائی دائیں بازو کی قوتوں نے ان مذاکرات کو "سنگین غلطی” قرار دے دیا ہے۔
، مصری وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ غزہ کے تنازعے کے خاتمے کے لیے دوسرے ثالثوں کے ساتھ مصر کی جاری کوششوں کے ایک حصے کے طور پر، مصر 6 اکتوبر کو اسرائیل اور فلسطینی اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) کے وفود کے درمیان ایک اجلاس کی میزبانی کرے گا۔ دونوں فریق مخصوص حالات اور تمام قیدیوں کے تبادلے کی تفصیلات پر تبادلہ خیال کریں گے۔
4 اکتوبر کی شام کو اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ایک ویڈیو خطاب میں اُمید ظاہر کی کہ آنے والے دنوں میں تمام زیر حراست افراد کی رہائی کا اعلان کر دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ ہم آہنگی سے، اسرائیل "صورتحال کو بدلنے کیلئے ایک سفارتی اقدام کو فروغ دے رہا ہے۔ جبکہ حماس پر تمام قیدیوں کو رہا کرنے کا دباو بڑھانے کیلئے اسرائیلی فوج غزہ شہر میں اپنی جارحیت جاری رکھے ہوئے ہے۔
3 اکتوبر کی شام کو، حماس نے امریکی "20 نکاتی منصوبے” کے جواب میں ایک بیان جاری کیا، جس میں ثالثی کے ذریعے فوری طور پر مذاکرات شروع کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ تاہم تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حماس کے ردعمل میں نظر بندوں کی رہائی اور فلسطینی اداروں کو انتظامی اختیارات کی منتقلی جیسے مثبت عناصر پر زور دیا گیا، جب کہ تخفیف اسلحہ جیسے حساس موضوعات سے جان بوجھ کر گریز کیا گیا۔

غزہ کی پٹی کے میڈیا آفس نے 4 اکتوبر کو بتایا کہ اس دن صبح سویرے سے، اسرائیلی فوج نے غزہ کے گنجان آباد علاقوں پر 93 فضائی حملے اور توپ خانے سے حملے کیے ہیں، جن میں غزہ شہر کے 47 افراد سمیت 70 افراد ہلاک ہوئے۔

Back to top button

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker