
ستائیس ستمبر کو "چائنا ٹریول۔ انٹرنیشنل اینکرز اینڈ انفلوئنسرز وزٹ ٹو سی چھوان”نامی سرگرمی میں شریک بین الاقوامی اینکرز اور انفلوئنسرز نے” جن شا ” آثار قدیمہ میوزیم کا دورہ کیا اور قدیم سی چھوان کی شاندار تہذیب سے لطف اندوز ہوئے۔
بین الاقوامی اینکرز اور انفلوئنسرز نےمختلف نمائشی ہالز کا دورہ کیا اور قدیم شو بادشاہت کے دریائی قربانی کے وسیع و عریض مقام کو براہ راست محسوس کیا ،انہوں نے دریافت شدہ 9,000 سے زائد سونے،جواہر اور ہاتھی دانت کی اشیاء سے دریائے یانگسی کے بالائی حصے میں کانسی کی تہذیب کے شاندار عروج کا مشاہدہ بھی کیا ۔بین الاقوامی مہمانوں نے سب سے پہلے آثار قدیمہ کےہال کا دورہ کیا۔ یہ نیم دائرہ نما فولادی ڈھانچہ دراصل جن شا آثار قدیمہ میں بڑی عبادت گاہ کے مقام کی کھدائی کی جگہ ہے، جو اب تک دریافت ہونے والا قدیم شو بادشاہت کا عبادت اور قربانی کا سب سے محفوظ اور بھرپور مقام ہے۔بالائی منزل کے مشاہداتی پلیٹ فارم پر کھڑے ہو کر، 3,000 سال پہلے قدیم شو لوگوں کی دریائی قربانی کے مناظر کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ بکھرے ہوئے ہاتھی دانت کے ٹکڑے اور پتھر کے اوزاروں کے نشانات دیکھ کر بین الاقوامی اینکرز اور انفلوئنسرز کیمرے اٹھانے پر مجبور ہو گئے۔
"ہزار سالہ بیش قیمت نوادرات” کی نمائش گیلری میں، عجائب گھر کا سب سے قیمتی خزانہ "گولڈن سن برڈ” کے سامنے لوگوں کا ہجوم جمع ہے ۔ گولڈن سن برڈ کے سنہری زیورات کا بیرونی قطر 12.5 سینٹی میٹر، موٹائی صرف 0.02 سینٹی میٹر، اور سونے کی مقدار 94.2 فیصد ہے۔ اس پر چار پراسرار پرندے بارہ سورج کی کرنوں کے گرد گھومتے دکھائی دیتے ہیں۔ جب بین الاقوامی انفلوئنسرز کو پتہ چلا کہ جن شا آثار قدیمہ سے دریافت ہونے والا "گولڈن سن برڈ” چینی ثقافتی ورثے کی علامت بن چکا ہے تو وہ حیران رہ گئے۔
بین الاقوامی اینکرز اور انفلوئنسرز نے عبادت گاہ کے آثار ، سن برڈ، کانسی کے انسانی مجسمے جیسے عناصر کو مختصر ویڈیوز اور تصویری مراسلات میں تبدیل کر کے انٹرنیشنل پلیٹ فارمز پر شائع کیا۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ وہ اس نمائش کو تین الفاظ میں کیسے بیان کرتے ہیں، تو بیلرف نامی ایک اینکر نے جواب دیا کہ "میرا خیال ہے کہ یہ معنی خیز، شاندار اور دلچسپ ہے۔”
جن شا آثار قدیمہ ایک زیر زمین آثار قدیمہ کے مقام سے بین الاقوامی اثر و رسوخ رکھنے والی ثقافتی علامت بن گیا ہے۔ اس بین الاقوامی تہذیبی دورے نے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جن شا آثار قدیمہ کی منفرد دلکشی اور گہرائی سے روشناس کرایا ہے، اور اس سے بین الاقوامی سطح پر جن شا تہذیب کو وسیع تر توجہ دلانے میں بھی مدد ملے گی۔