
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا کہ گزشتہ سال جون میں پیش کیے گئے روس۔یوکرین تنازع کی جنگ بندی شرائط اب بھی قابلِ عمل ہیں۔ دوسری طرف یوکرینی صدر زیلنسکی نے اعلان کیا کہ اگر روس مخلصانہ طور پر امن کی خواہش رکھتا ہے تو یوکرین کسی بھی وقت سربراہی مذاکرات کے لیے تیار ہے، اور امن کے حصول کو ممکنہ تیز ترین رفتاری سے آگے بڑھائے گا۔ دونوں ممالک کی جانب سے مثبت اشارے ملنے کے باوجود، امریکہ نے روس کے قریب اپنی جوہری آبدوز تعینات کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ امریکہ اور نیٹو یوکرین کو ہتھیار فراہمی کے نئے طریقہ کار پر کام کر رہے ہیں۔
یکم اگست کو ہی امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ روسی فیڈرل سکیورٹی کونسل کے نائب چیئرمین میدویدیف کے بیانات کے جواب میں انہوں نے دو جوہری آبدوزوں کو متعلقہ علاقے میں تعینات کرنے کا حکم دیا ہے۔
اٹھائیس جولائی کو ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ روسی صدر پیوٹن سے "سخت مایوس” ہیں، اور روس۔یوکرین معاہدے کے لیے مقرر کردہ 50 دن کی ڈیڈ لائن کو کم کر رہے ہیں ، جس کا مقصد روس اور یوکرین کو معاہدے تک پہنچانا ہے۔
میدویدیف نے فوری طور پر ٹرمپ پر "الٹی میٹم گیم” کھیلنے کا الزام لگایا اور یاد دلایا کہ "روس اب بھی سوویت دور کی حتمی جوہری حملے کی صلاحیت رکھتا ہے”۔



