
اعتصام الحق
"یہ کوئی عام شاہراہ نہیں، بلکہ دوستی اور محبت کا وہ پُل ہے جو پتھروں اور برف کے دل سے گزار کر بنایا گیا۔ 1966 میں جب چین اور پاکستان کے ہاتھ ملے، تو قدرت نے چیلنج دیا تھا – دنیا کے سب سے مشکل ترین پہاڑی سلسلوں کو عبور کرنے کا!” یہ منصوبہ تھاشاہراہ قراقرم ۔یہ بلند و بالا پہاڑوں کے دامن میں ایک ایسی شاہراہ کی تعمیر کا سفر تھا جس نے ناصرف جغرافیائی رکاوٹوں کو پیچھے چھوڑا بلکہ دو دوست ممالک کے درمیان اقتصادی اور ثقافتی روابط کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔ 1966 سے 1982 تک جاری رہنے والے اس تاریخی منصوبے نے انجینئرنگ کے نئے معیارات قائم کی۔تب ہر دن ایک نیا امتحان تھا۔ کبھی زلزلے، کبھی برفانی طوفان، کبھی آکسیجن کی کمی۔ مگر 16 سال تک 24 سینکڑوں چینی اور پاکستانی مزدوروں نے ہمت نہ ہاری۔ ان محنت کشوں نے تاریخ لکھی لیکن قلم سے نہیں ،بلکہ اپنے اوزاروں سے ۔ قراقرم ہائی وے، جو پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان میں واقع ہے، اسے چین-پاکستان دوستی ہائی وے کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ پاکستان اور چین کو ملانے والا واحد زمینی راستہ ہے۔1982 میں جب یہ 1300 کلومیٹر لمبی شاہراہ مکمل ہوئی، تو یہ صرف ایک شاہراہ نہیں بنی تھی – بلکہ اس نے 4700 میٹر دنیا کی بلند ترین بین الاقوامی شاہراہ کا اعزاز بھی حاصل کیا۔
شاہراہ قراقرم 1,300 کلومیٹر طویل ہے، جو پاکستان کے حسن ابدال سے چین کے کاشغر تک جاتی ہے یہ دنیا کے بلند ترین پہاڑی سلسلوں قراقرم، ہمالیہ اور ہندوکش سے گزرتی ہے اور 4,714 میٹر کی بلندی پر واقع خنجراب پاس کو عبور کرتی ہے۔ شاہراہ قراقرم چین-پاک اقتصادی راہداری کا ایک اہم حصہ ہے، جو دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور نقل و حمل کو آسان بناتی ہے۔
یہ رشتہ اب اور بھی مضبوط ہو رہا ہے۔ 2023 میں قراقرم ہائی وے ری لوکیشن پروجیکٹ میں 1.4 کلومیٹر طویل جدید ٹنل کی حال ہی میں تکمیل نے اس شاہراہ کو نئی زندگی بخش دی ہے۔ یہ تو صرف آغاز ہے، کیونکہ مزید 7 سرنگیں اور 3 پل بننے باقی ہیں۔شاہراہ قراقرم صرف پتھر اور سیمنٹ کا راستہ نہیں، بلکہ چین-پاکستان کی وہ لازوال دوستی ہے جو پہاڑوں سے بھی اونچی ہے اور یہ وقت کے ساتھ اور بھی مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ یہ کہانی نہیں، حقیقت ہے – ایک ایسی حقیقت جو آنے والی نسلوں کو بھی متحد رکھے گی۔