
واشنگٹن :امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ امریکی فضایہ نے ایران کی فردو، نطنز اور اصفہان میں موجود تین جوہری تنصیبات پر کامیاب حملہ کیا اور انہیں مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔ سنہ 1979 میں اسلامی انقلاب کے بعد امریکی فوج کی جانب سے ایران پر بڑے پیمانے پر کیا جانے والا یہ پہلا حملہ ہے۔ امریکہ نے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کی نگرانی میں جوہری تنصیبات پر کھلے عام حملے کرکے ایک بہت بری مثال قائم کی ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکی فوج کی براہ راست شمولیت سے ایرانی جوہری مسئلے کو حل کرنے میں مدد نہیں ملے گی ۔ مشرق وسطیٰ میں امن کے لیےبات چیت اور مذاکرات ہی واحد راستہ ہے۔سب سے پہلے تو سوال یہ ہے کہ جوہری تنصیبات کی تباہی ایران کے جوہری مسئلے کا حل ہے ؟اس کا جواب ہے ، "نہیں” ۔ اگرچہ امریکہ نے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ ایران کی جوہری تنصیبات مکمل طور پر تباہ کر دی گئی ہیں، لیکن جب تک ایران خود اسے سرکاری طور پر تسلیم نہ کرے اس پر یقین نہیں کیا جا سکتا اور حقیقت کیا ہے یہ صرف وقت ہی بتا سکتا ہے ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکہ نے ایران کو خفیہ چینلز کے ذریعے فوجی حملے کی پیشگی اطلاع دی تھی اور سیٹلائٹ تصاویر میں حملے سے دو روز قبل فردو جوہری تنصیب کے قریب ایک بڑے قافلے کی موجودگی بھی دیکھی گئی جس سے یہ امکان ظاہر ہوتا ہے کہ جوہری مواد منتقل کر دیا گیا تھا ۔
اہم بات یہ ہے کہ یہ مان بھی لیا جائے کہ امریکی فوج نے جوہری تنصیبات کو تباہ کر دیا ہے لیکن وہ ایران کی جوہری صلاحیت مکمل طور پر ختم نہیں کر سکتی ۔ امریکی میڈیا نے اسلحے کے کنڑول کی امریکی ماہر کیلسی ڈیون پورٹ کے حوالے سے کہا ہے کہ عسکری طاقت متعلقہ تکنیکی معلومات کو ختم نہیں کر سکتی بلکہ یہ فوجی حملہ ایران کو جوہری ہتھیار تیار کرنے کی ترغیب دے سکتا ہے۔ "تشویشناک بات یہ ہے کہ ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد باقر قالیباف نے23 جون کو کہا کہ ایرانی پارلیمنٹ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے ساتھ ایران کے تعاون کو معطل کرنے کے لئے ایک بل کی منظوری پر زور دے رہی ہے. انتہائی صورتوں میں ایران جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے سے دستبرداری جیسے جوابی اقدامات بھی کر سکتا ہے۔
ایران کے جوہری پروگرام کو ختم کرنے کے بجائے خود امریکی بم اس سے بھی زیادہ خطرناک جوہری پھیلاؤ کا باعث بن سکتا ہے ۔امریکی فوج کی براہ راست "شمولیت ” سے خطے میں تشدد میں اضافہ ہو ا ہے۔ ایران کے پاسداران انقلاب نے 23 جون کو اسرائیل کے خلاف حملوں کے اکیسویں دور میں ٹھوس ایندھن اور مائع ایندھن والے بیلسٹک میزائلوں کے ساتھ ساتھ سمارٹ ڈرونز کا استعمال کیا اور پہلی بار "قدر-ایچ” ملٹی وار ہیڈ بیلسٹک میزائل کا استعمال بھی کیا۔ اسی دن ، آئی ڈی ایف نے ایران کے مغربی ، مشرقی اور وسطی حصوں میں چھ ہوائی اڈوں پر بھی حملہ کیا اور فردو جوہری تنصیب پر دوسرا حملہ کیا۔ اسرائیلی جنگی طیاروں نے اسی دن ایرانی ہلال احمر سوسائٹی کی عمارت پر بھی حملہ کیا۔ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملے نے علاقائی تنازعات کے پھیلاؤ کے خطرے کو بڑھا دیا ہے۔فوجی لحاظ سے ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی فوج کے حملے کے جواب میں ایران کے پاسداران انقلاب نے 23 تاریخ کی رات کو قطر کے شہر العدید میں امریکی فضائی اڈے پر کل دو راؤنڈز کے 19 میزائل داغے۔
ادھر یمن کے حوثی باغیوں نے کہا ہے کہ وہ امریکہ کے اقدامات کی روشنی میں بحیرہ احمر میں امریکی بحری جہازوں پر حملے دوبارہ شروع کریں گے۔ لبنانی حزب اللہ نے بھی کہا ہے کہ وہ ایران کی بھرپور حمایت کرے گی اور امریکی جارحیت کے جواب میں مناسب کارروائی کرے گی۔ اقتصادی سطح پر ایرانی پارلیمنٹ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ آبنائے ہرمز کو بند کر دیا جائے۔اگر آبنائے ہرمز بند کر دیا گیا تو بلاشبہ اس کا عالمی معیشت پر بڑا منفی اثر پڑے گا۔دوسری جنگ عظیم کے بعد سے مشرق وسطیٰ میں ہر امریکی فوجی مداخلت نے علاقائی ممالک کو بغیر کسی استثنا کے بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ اس بار امریکہ نے ایک بار پھر خود مختار ملک پر کھلم کھلا حملہ کرکے اقوام متحدہ کے منشور اور اصولوں نیز بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی کی ہے جس کی چین، روس اور اسلامی ممالک سمیت بین الاقوامی برادری نے شدید مذمت کی ہے۔ تاریخ بار بار ثابت کر چکی ہے کہ فوجی کارروائی نفرت جمع کرنے کے سوا کوئی مسئلہ حل نہیں کر سکتی۔تو ایسی صورت میں باہر نکلنے کا راستہ کہاں ہے؟
چینی صدر شی جن پھنگ نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ حالیہ ٹیلیفونک گفتگو کے دوران بحران کے حل کی سمت کی نشاندہی کی ہے، یعنی "فائر بندی اشد ضروری ہے اور بات چیت اور مذاکرات ہی درست راستہ ہے ۔ مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی سنگین صورتحال کے پیش نظر بین الاقوامی برادری کو چین کی چار نکاتی تجویز قبول کرتے ہوئے مل کر فوری کارروائی کرنی ہوگی ۔ چین تمام فریقوں کے ساتھ رابطے اور ہم آہنگی کو مضبوط بنانے، مشترکہ کوششوں کو یکجا کرنے، انصاف کو برقرار رکھنے اور مشرق وسطی میں امن کی بحالی میں تعمیری کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہے۔