
بیجنگ :قازقستان کے آستانہ میں منعقد ہونے والی دوسری چین-وسطی ایشیا سمٹ میں تعاون کے متعدد اتفاق رائے کو عملی شکل دی گئی ہے۔ خاص طور پر چینی صدر شی جن پھنگ نے سمٹ میں اپنی کلیدی تقریر میں پہلی مرتبہ "چین وسطی ایشیا روح” کی تجویز پیش کی، جو آنے والی نسلوں کے لئے دوستی اور تعاون کا ایک اہم رہنما اصول فراہم کرتی ہے۔ پانچ وسطی ایشیائی ممالک کے رہنماؤں نے "چین کو ایک اسٹریٹجک پارٹنر اور مخلص دوست کے طور پر سراہا جس پر وسطی ایشیائی ممالک ہمیشہ بھروسہ کرسکتے ہیں۔”رواں سال چین وسطی ایشیا میکانزم کے قیام کی پانچویں سالگرہ ہے۔
ماضی اور مستقبل کو ملانے والے ایک اہم موڑ پر کھڑے ہو کر صدر شی جن پھنگ نے چین اور وسطی ایشیا کے درمیان تعاون کے تجربے کا خلاصہ "باہمی احترام، باہمی اعتماد، باہمی فائدے اور باہمی مدد، اور اعلیٰ معیار کی ترقی کے ساتھ مشترکہ جدت کو فروغ دینے” کی "چین-وسطی ایشیا روح” کی صورت میں پیش کیا، جو نہ صرف گہری تاریخی کامیابیوں کی عکاسی کرتی ہے، بلکہ وقت کے ترقیاتی رجحان سے بھی مطابقت رکھتی ہے۔اس "روح” کا تذکرہ سمٹ کے آستانہ اعلامیہ میں بھی کیا گیا جس کا مطلب ہے کہ اسے پانچ وسطی ایشیائی ممالک نے متفقہ طور پر تسلیم کرتے ہوئے اس کی حمایت کی ہے۔چین اس بات پر زور دیتا ہے کہ وہ اپنی ہمسایہ ممالک کی سفارت کاری میں ہمیشہ وسطی ایشیا کو ترجیح دیتا ہے اور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ برابری اور خلوص کے ساتھ پیش آتا ہے۔
چین نے علاقائی سلامتی کی حکمرانی کو مضبوط بنانے، انتہا پسند نظریات کے خلاف تحفظ اور مزاحمت کے لئے مل کر کام کرنے، "تین قوتوں” کے خلاف سختی سے کریک ڈاؤن کرنے اور مشترکہ طور پر علاقائی امن و استحکام کو برقرار رکھنے کی تجویز پیش کی ہے۔ جو چیز لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کراتی ہے وہ یہ ہے کہ چھ ممالک کے سربراہان مملکت نے مشترکہ طور پر مستقل اچھی ہمسائیگی، دوستی اور تعاون کے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جس نے نسلوں سے جاری دوستی کے اصول کو قانونی شکل دی ہے۔ تجزیہ کاروں نے نشاندہی کی کہ یہ چین اور وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان سیاسی باہمی اعتماد کی ایک نئی بلندی کی علامت ہے، جو چھ ممالک کے درمیان تعلقات کی تاریخ میں ایک نیا سنگ میل ہے، اور خطے میں تعاون کو گہرا کرنے کے لئے ایک ٹھوس بنیاد رکھے گا۔