کالم /بلاگز

چین کی زمینی مواصلاتی ٹیکنالوجی میں اہم  پیشرفت

اعتصام الحق ثاقب

چینی محققین نے سیٹلائٹ سے زمینی مواصلاتی ٹیکنالوجی میں اہم پیشرفت حاصل کی ہے، جس میں ایکس بینڈ ٹرانسمیشن کی سنگل چینل رفتار کا نیا قومی ریکارڈ قائم کیا گیا ہے۔ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈیلی کی رپورٹ کے مطابق، چائنیز اکیڈمی آف سائنسز کے تحت ایرو اسپیس انفارمیشن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی تحقیقی  ٹیم  کو نئی زمینی مواصلاتی ٹیکنالوجی کے تجربات  میں کامیابی  حاصل ہوئی ہے۔ 

محققین نے سنگل چینل ایکس بینڈ ٹرانسمیشن میں 2,100 میگا بٹس فی سیکنڈ کی ریکارڈ رفتار حاصل کی، جو مائیکروویو مواصلاتی کوڈ ریٹ میں 75 فیصد اضافے کے برابر ہے۔ سیٹلائٹ کی مشاہداتی صلاحیتوں میں مسلسل بہتری کے ساتھ، سیٹلائٹس سے پیدا ہونے والے ڈیٹا کی مقدار تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ فی الحال، ملکی شہری سیٹلائٹس بنیادی طور پر ڈیٹا ٹرانسمیشن کے لیے ایکس بینڈ کا استعمال کرتے ہیں، جہاں سنگل چینل ٹرانسمیشن کی رفتار عام طور پر 450 میگا بٹس فی سیکنڈ سے 1,200 میگا بٹس فی سیکنڈ تک ہوتی ہے۔ 

اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ  رفتار اب خلائی تحقیق کے وسیع ڈیٹا کی ٹرانسمیشن کی ضروریات پوری نہیں کر سکتی، جس سے سیٹلائٹ کے استعمال کی کارکردگی متاثر ہو رہی ہے۔ اس لیے سنگل چینل ٹرانسمیشن کی رفتار میں بہتری لانا انتہائی ضروری ہو گیا تھا۔ حالیہ کامیابی  میں چین کے جنوب مغربی صوبہ یوننان کے شہر لِجیانگ میں ایک ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ گراؤنڈ اسٹیشن پر جامع ٹیسٹنگ کے ذریعے اس کامیابی کی تصدیق کی گئی، جہاں محققین نے نظام کی تکنیکی صلاحیت کو کامیابی سے ثابت کیا۔  چینی ماہرین کا کہنا ہے کہ  یہ کامیابی  ان کے لئے ملک کی سیٹلائٹ مواصلاتی حدود پر قابو پانے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ یہ پیشرفت چین کی خلائی تحقیق اور ڈیٹا ٹرانسمیشن کے شعبوں میں خود انحصاری کو ظاہر کرتی ہے، جس سے ملکی و بین الاقوامی خلائی منصوبوں کے لیے نئے امکانات کھلے ہیں۔

چین نے زمینی مواصلاتی ٹیکنالوجی کے شعبے میں قابل ذکر ترقی کی ہے جو نہ صرف ملکی ضروریات کو پورا کرتی ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی مثبت اثرات مرتب کر رہی ہے۔ چین نے   فائیو جی  ٹیکنالوجی کے میدان میں دنیا بھر میں ایک معیار قائم کیا ہے اور 2025 تک اس کے پاس دنیا کا سب سے بڑا اور جدید ترین  فائیو جی  نیٹ ورک موجود ہے جس میں 30 لاکھ سے زائد بیس اسٹیشنز تعمیر کیے جا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ چین  فائیو جی ٹیکنالوجی کی تحقیق اور ترقی میں بھی پیش پیش ہے جس کے لیے چینی حکومت نے 2025 تک 15 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کی ہے۔ چین کی کمپنیاں جیسے ہواوے اور زیدیمو نے نئی جنریشن کے مواصلاتی آلات تیار کیے ہیں جو نہ صرف تیز رفتار ڈیٹا ٹرانسمیشن فراہم کرتے ہیں بلکہ توانائی کی کفالت اور ماحول دوست ٹیکنالوجی پر بھی کام کر رہے ہیں۔  بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے تحت متعدد ممالک میں فائبر آپٹک نیٹ ورکس بچھائے  گئے ہیں جس سے ان ممالک میں انٹرنیٹ کی رفتار اور رسائی میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ چین کی جانب سے ترقی پذیر ممالک کو مواصلاتی انفراسٹرکچر مہیا کرنے کے منصوبوں نے ان ممالک کی معیشتوں کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مصنوعی ذہانت اور انٹرنیٹ آف تھنگز کو مواصلاتی نظاموں میں ضم کر کے  چین نے اسمارٹ شہروں اور صنعتی خودکار نظاموں کو فروغ دیا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2025 تک چین میں 500 ملین سے زائد  آئی او ٹی  ڈیوائسز فعال ہیں جو دنیا کا سب سے بڑا نیٹ ورک ہے۔  سیٹلائٹ مواصلات کے شعبے میں  چین کی کامیابیوں کی بات کی  جائے تو  کئی  اہم کامیابیاں حاصل کی  گئی ہیں اور  بیدو سیٹلائٹ نیویگیشن سسٹم نے جی پی ایس کی عالمی منڈی میں  اپنا مقام پیدا کیا ہے ۔ چین کی مواصلاتی ترقی نے نہ صرف عالمی ڈیجیٹل تقسیم کو کم کیا ہے بلکہ ترقی پذیر ممالک کو سستی اور معیاری ٹیکنالوجی فراہم کر کے ان کی سماجی و اقتصادی ترقی میں  بھی مدد کی ہے۔ چین کی مواصلاتی پالیسیوں کا بنیادی مقصد عالمی سطح پر مربوط اور پائیدار ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کو فروغ دینا ہے جس سے دنیا بھر کے عوام کو یکساں مواقع میسر آ سکیں۔

Back to top button

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker