
فواد اکرم مرزا
پاکستان آج ایک عجیب مخمصے میں گھرا ہوا ہے۔ ایک طرف تو یہ اپنی نوجوان آبادی کو ترقی کی راہ پرگامزن کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ،دوسری طرف ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کاہونہارنو جوان اس سرزمین کو خیرآباد کہہ رہا ہے۔یہ کوئی معمولی رجحان نہیں، بلکہ ایک قومی المیہ ہے جو ہم سب کی آنکھوں کے سامنے وقوع پذیر ہو رہا ہے۔ سیاست کے میدان میں جو کھیل کھیلا جارہا ہے وہ عوام کو ایک بے معنی تماشے سے زیادہ کچھ نہیں لگتا۔ وہی پرانے چہرے، وہی نعرے، وہی وعدے ۔ مگرعملاً کچھ بدلنے کی بجائے صور تحال دن بدن بد تر ہوتی جار عوام اب ان سیاسی ڈراموں سے اکتا چکے ہیں جہاں ہر نیا کردار پرانے کرداروں سے بھی زیادہ مایوس کن ثابت ہوتا ہے۔ ہرروز نئی سیاسی چالیں، عدم استحکام ، اور قیادت کی کھینچا تانی نے عام آدمی کو ایک ان دیکھے اندھیرے میں دھکیل دیا ہے۔
سوال یہ نہیں کہ حکومت کس کی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا واقعی عوام کی فلاح کسی بھی حکومت کی ترجیح ہے ؟سیاستدانوں کے بیانات اور عملی اقدامات میں جو تضاد ہے، وہ کسی سے چھپا نہیں۔ جلسے جلوس ، وعدے ،نعرے،مگرحقیقت میں عام آدمی کی زندگی میں کوئی بہتری نہیں آرہی۔یہ سب کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ایک کھیل کھیلا جارہا ہو،جس میں عوام صرف میرے ہیں اور اصل فیصلے کہیں اور ہو رہے ہیں۔ پاکستان کی سیاست آج ایک بد ترین تماشے میں بدل چکی ہے،جس میں نہ کوئی حقیقت ہے، نہ کوئی وعدہ وہ یہ صرف ایک مست و بے رنگ ڈرامہ بن چکا ہے، جس میں ہر نیا کردار پہلے سے زیاد مایوس کن اورعوام کی امیدوں کو توڑنے والا ہے۔ وہی چہرے، وہی پرانے وعدے، وہی جھوٹے نعرے ،اور وہی بے مقصد باتیں جو ہر انتخابات میں سنائی دیتی ہیں۔
ایک ایسا کھیل جس میں عوام محض تماشائی بن کر رہ گئے ہیں۔ ہرنیا حکومتی چہرہ پچھلے حکمرانوں سے بڑھ کر فریب اور دھوکے کی کہانیاں سناتا ہے، اور عوام کی نظریں سوالیہ نشان بن کر اٹھتی ہیں کہ کب تک ہم یہ سچائیاں چھپاتے رہیں گے ؟معیشت کی بات کریں تو یہ ایک ڈوبتے ہوئے بحری جہاز کی المناک داستان سے کم نہیں۔ تصور کیجئے !ایک ایسا ملک جہاں ڈالر کی قیمت میں اتار چڑھاؤ سے بلڈ پریشر کے مریضوں کو ہسپتال جانے کی ضرورت پڑ جائے۔جہاں مہنگائی کا عفریت اتنا بے رحم ہو چکا ہے کہ متوسط طبقے کا گھر انہ اب اپنے بچوں کو انڈے تک نہیں کھلا پاتا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہماری معیشت اتنی تیزی سے زوال پذیر ہورہی ہے کہ کرتے ہوئے کو بھی شرم آجائے۔ کبھی جو ملک زرعی خود کفالت پر فخر کرتا تھا، آج وہ اپنی بنیادی خوراک کے لیے بھی دوسروں کا محتاج ہے۔
کاروباری حضرات روزانہ اپنی دکانیں بند کر رہے ہیں، فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں ،اور ہنر مند افراد ملک چھوڑ رہے ہیں۔ یہ سب کچھ ایک ایسے طوفان کی مانند ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ زورپکڑتا جارہا ہے۔ ان سیاسی اور مالی مشکلات کے ساتھ ، جو مسئلہ سب سے زیادہ خطر ناک ہوتا جارہا ہے ، وہ ہے تعلیمی نظام کی تباہی۔ اسکولوں، کالجوں، اور یونیورسٹیوں میں جو تعلیم دی جارہی ہے ،وہ آج کی عالمی ضروریات کے مطابق نہیں۔ کیا ایک ایسا ملک جو نوجوانوں کی اکثریت پرمشتمل ہے، اس کا تعلیمی نظام ان کی ترقی کے لیے تیار ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ میرٹ کا جنازہ نکالا جا چکا ہے،اقربا پروری عام ہو چکی ہے ، سفارش اور پیسہ کامیابی کے بغیادی ستون بن چکے ہیں۔ کسی قابل اورمحنتی طالب علم کے لیے آگے بڑھنے کے راستے مسدود ہوتے جار ہے ہیں، جبکہ وہ لوگ جو ” چاہے جیسے "بھی مواقع خرید سکتے ہیں، وہی کامیاب دکھائی دے رہے ہیں۔ کیا یہ وہی ملک ہے جس کے نوجوانوں کو کبھی مستقبل کا معمار سمجھا جاتا تھا؟ نتیجتا،نوجوان نسل خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہی ہے۔
انہیں اپنے مستقبل کے حوالے سے خدشات لاحق ہیں، اور وہ ایک ایسے تعلیمی اور معاشی نظام کی تلاش میں ہیں جہاں انہیں حقیقی مواقع مل سکیں۔ یہی وجوہات ہیں کہ آج ہر نوجوان کی سب سے بڑی خواہش پاکستان سے باہر نکلنا ہے۔ کوئی چاہے کتنا بھی وطن پرست ہو ،جب وہ خود کو ایک ایسے نظام میں پھنسا دیکھتا ہے جہاں اس کی محنت کی کوئی قدرنہیں، جہاں اس کے خواب بار بار توڑے جاتے ہیں، تو اس کے پاس ایک ہی راستہ بچتا ہے : ہجرت۔اس لیے پاکستانی طلبہ بڑی تعداد میں بیرون ملک ،خاص طور پر برطانیہ ، میں تعلیم حاصل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ ایک ایسا تعلیمی نظام چاہتے ہیں جہاں انہیں میرٹ پر مواقع ملیں ،جدید مہارتیں حاصل کرنے کا موقع ملے، اورایک مستحکم کیریئر بنانے کی امید ہو۔ ان کا خواب صرف ایک بہتر تعلیم حاصل کرنا نہیں، بلکہ ایک ایسا مستقبل ڈھونڈنا ہے جہاں انہیں ان کی محنت کا حقیقی صلہ ملے۔ پاکستان سے باہر جانے والے بیشتر نوجوانوں کا ارادہ کبھی واپس آنے کا نہیں ہوتا۔ ان کا مقصد نہ صرف خود کو بلکہ اپنی نسلوں کو بھی بہتر مستقبل فراہم کرنا ہے۔ ان کا یقین ہے کہ وہ اپنے وطن میں رہ کر اپنے خوابوں کو حقیقت میں نہیں بدل سکتے ۔
وہ دیکھ چکے ہیں کہ یہاں کے حالات میں ایک نوجوان کے لیے کامیابی حاصل کرنا محض ایک خواب بن کر رہ جاتا ہے۔ ان نو جوانوں کو یہ بھی اندازہ ہو چکا ہے کہ پاکستان میں رو کر وہ اپنے خوابوں کا تعاقب نہیں کر سکتے۔ اور یہی وہ حقیقت ہے جو انہیں اپنے وطن چھوڑنے پر مجبور کرتی ہے۔ لیکن کیا بیرون ملک جانا واقعی آسان ہے ؟ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ بس ویزا ملا اور سب کچھ ٹھیک ہو گیا ،وہ حقیقت سے بہت دور ہیں۔ پاکستانی طلبہ کو برطانیہ پہنچنے سے پہلے ہی بے شمار مشکلات کا سامنا کر نا پڑتا ہے۔ سب سے پہلے مالی معاملات ایک بہت بڑا چیلنج ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ایک متوسط طبقے کے خاندان کے لیے اپنے بچے کو برطانیہ بھیجنا کسی خواب سے کم نہیں۔ لاکھوں روپے خرچ کرنے کے بعد بھی اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی کہ مستقبل میں سب کچھ ٹھیک ہو گا۔
برطانیہ کا ” یو کے ڈریم ” دیکھنے والوں کی کہانی خاصی درد ناک ہے۔ ویزے کے لیے جعلی دستاویزات،قرضے،گھربیچنا۔ یہ سب کچھ وہ ایک موقع کے لیے کر گزرتے ہیں۔ مگرحقیقت یہ ہے کہ برطانیہ پہنچ کر انہیں ایک نئی جنگ لڑنی پڑتی ہے۔ سردیوں میں۔ 5 ڈگری میں ڈیلیوری کرنا 12 گھنٹے کی شفٹیں کرنا، اور گھروالوں کے دباؤ میں گھر پیسے بھیجتے ہوئے۔ یہ ہے "یور و ڈریم ” کی حقیقت۔ جب کوئی پاکستانی طالب علم برطانیہ پہنچتا ہے تو سب کچھ ایک نئی دنیا لگتا ہے۔ وہاں کا تعلیمی نظام ،پاکستان کے روایتی نظام سے یکسر مختلف ہے۔ یہاں "رٹا سٹم ” نہیں چلتا، بلکہ تحقیق، تجزیہ اور تخلیقی سوچ کی قدر کی جاتی ہے۔ بہت سے طلبہ ،جوپاکستان میں امتحانات میں اعلی نمبر لے کر آتے ہیں، یہاں آکر پریشان ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ اس نئے تعلیمی نظام سے ہم آہنگ ہونے کے لیے تیارنہیں ہوتے۔
انگریزی زبان کی کمزوری،پریزنٹیشن اور اسائنمنٹس کی سختی، اورپروفیسرز کی توقعات ،یہ سب کچھ ان کے لیے ایک چیلنج بن جاتا ہے۔ پھر مالی مسائل دوبارہ سر اٹھاتے ہیں۔ برطانیہ میں زندگی گزار ناستا نہیں، خاص طورپر لندن جیسے شہروں میں۔ زیادہ ترپاکستانی طلبہ کو پارٹ ٹائم جابز کرنی پڑتی ہیں تاکہ وہ اپنے تعلیمی اور روز مرہ کے اخراجات پورے کر سکیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر جابز بیر ہاؤس،ڈیلیوری،یار پٹیل سیکٹر میں ہوتی ہیں، جو ان کی فیلڈ سے کوئی تعلق نہیں رکھتیں۔ یہ طلبہ دن میں پڑھتے ہیں، رات کو نوکری کرتے ہیں، اور پھر صبح کی کلاس کے لیے بمشکل خود کو تیار کر پاتے ہیں۔ تھکن ، دباؤ، اور ذہنی تناؤ ان کے مستقل ساتھی بن جاتے ہیں۔ یہاں ایک اور مسئلہ سامنے آتا ہے :کیریر کا مستقبل۔ پاکستانی طلبہ برطانیہ میں اپنی ڈگری مکمل کرنے کے بعد ایک بہتر نوکری چاہتے ہیں، لیکن یہ صرف ڈگری لینے سے ممکن نہیں ہوتا۔
برطانیہ میں نوکری کے لیے جدید مہارتوں ، نیٹ ورکنگ ،اور درست فیصلوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ کئی طلبہ ،جو صرف پڑھائی پر توجہ دیتے ہیں اور اپنی فیلڈ میں عملی مہارت حاصل نہیں کرتے، وہ بعد میں نوکری تلاش کرنے میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ یہ سب چیلنجز مل کرپاکستانی طلبہ کے لیے ایک سخت حقیقت بن جاتے ہیں۔ وہ پاکستان کے خراب نظام سے بچنے کے لیے برطانیہ آتے ہیں، لیکن یہاں بھی اگر وہ پہلے سے تیار نہ ہوں تو مشکلات ان کا راستہ روکتی ہیں۔ لیکن جو طلبہ پہلے سے ذہنی طور پر تیار ہوتے ہیں، جو جدید مہارتوں پر کام کرتے ہیں، جو نیٹ ورکنگ اور جاب مارکیٹ کی سمجھ رکھتے ہیں ، وہ کامیاب ہو جاتے ہیں۔
یہ کہانی صرف ایک دو طلبہ کی نہیں، بلکہ ہر اس نوجوان کی ہے جو بہتر مستقبل کے خواب دیکھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کبھی ایسا مک بنے گا جہاں کسی کو باہرجانے کی ضرورت نہ پڑے ؟یا پھر ہمارے نوجوان ہمیشہ کے لیے پردیس میں اپنے خواب پورے کرنے پرمجبوررہیں گے۔