![](https://ips.media/wp-content/uploads/2025/02/gaza-1.jpg)
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 4 فروری کو کہا کہ امریکہ غزہ کی پٹی کو حاصل کرے گا اور "اپنی ملکیت” میں لے گا جبکہ غزہ کی پٹی میں مقیم فلسطینیوں کو دوسرے ممالک میں منتقل کیا جانا چاہیے۔ ٹرمپ کے اس بیان کو یورپی یونین اور متعدد یورپی ممالک نے ناقابل قبول قرار دیا ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے ترجمان نے کہا کہ یورپی یونین "دو ریاستی حل” کے لیے مضبوطی سے پرعزم ہے اور اسرائیل اور فلسطین کے لیے طویل مدتی امن کے حصول کا یہی واحد راستہ ہے۔ برطانوی وزیر اعظم اسٹارمر نے اسی دن کہا کہ فلسطینیوں کو اپنے گھروں کی تعمیر نو کے لیے غزہ کی پٹی میں واپاس جانے کی اجازت دی جانی چاہیے اور بالآخر "دو ریاستی حل” کا ادراک کرنا چاہیے۔ فرانسیسی وزارت خارجہ نے بھی ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی سے فلسطینیوں کی جبری منتقلی بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ اسی روز جرمن صدر سٹین مائر نے کہا کہ امریکی صدر ٹرمپ کا منصوبہ بین الاقوامی قوانین کے تحت ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے "دو ریاستی حل” کے لیے جرمنی کی حمایت کا اعادہ کیا۔ ہسپانوی وزیر خارجہ الواریز نے کہا کہ غزہ کی پٹی فلسطینی عوام کی ہے اور مستقبل کی فلسطینی ریاست کا حصہ ہے اور اسے اسرائیل کے ساتھ مل کر رہنا چاہیے۔ بیلجیئم کی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے سےلوگوں کی جبری نقل مکانی بین الاقوامی انسانی قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں استحکام کے لیے بین الاقوامی قانون کے مکمل احترام اور "دو ریاستی حل” کے نفاذ کی ضرورت ہے۔