
اسلام آباد(آئی پی ایس) اسلام آباد میں احتجاج کی ناکامی کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت میں اختلافات سامنے آگئے، رہنماؤں نے بشریٰ بی بی کو احتجاج کی ناکامی کاذمے دار قرار دے دیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق پی ٹی آئی کے احتجاجی مارچ کے پرامن اختتام کی پس پردہ کوششوں سے آگاہ معتبر ذرائع نے بتایا ہے کہ سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کی ہٹ دھرمی کے ساتھ ساتھ عملی اور تکنیکی رکاوٹوں نے پی ٹی آئی کے احتجاجی مارچ کو ڈی چوک لے جانے کے بجائے امن طریقے سے حل کرنے کی آخری کوششوں کو ناکام بنا دیا۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے معاون اور ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نے کی تصدیق کی ہے کہ پیر کی رات سے پی ٹی آئی کی قیادت کو اسلام آباد سے دور رکنے اور دارالحکومت کے مضافات میں واقع سنگجانی کا رخ کرنے پر قائل کرنے کی کوششیں شروع کردی گئی تھیں۔
انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ پارٹی چیئرمین نے اس پیغام کو وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور تک پہنچانے پر رضامندی بھی ظاہر کی تھی۔
’خان صاحب جیل کی کوٹھری میں اپنے ساتھ کیے جانے والے سلوک پر انتہائی مشتعل اور ناراض تھے، لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر کافی بحث کے بعد انہوں نے ہچکچاہٹ کے ساتھ شہر کی حدود سے باہر مارچ روکنے پر رضامندی ظاہر کردی تھی‘۔
بیرسٹر سیف نے کہا کہ ’عمران خان نے کہا کہ وہ فیصلہ پارٹی رہنماؤں پر چھوڑ دیں گے کہ کیا کرنا ہے، بشرطیکہ حکومت کے ساتھ ٹھوس مذاکرات ہوں جس کے نتیجے میں ان کی رہائی ہو اور ان کے اور دیگر پارٹی رہنماؤں بشمول ڈاکٹر یاسمین راشد اور میاں محمود الرشید اور دیگر کے خلاف مقدمات واپس لیے جائیں‘۔
ان کوششوں سے آگاہ ایک ذرائع نے بتایا کہ سمجھوتہ کرنے کے لیے بہت کوششیں کی گئیں، جیل میں قید بانی چیئرمین اور گنڈاپور کے درمیان ٹیلی فون کال کا انتظام کرنے کی کوشش کی گئی، سگنل کے مسائل تھے لیکن پیغام پہنچا دیا گیا۔
بیرسٹر سیف نے ڈان کو بتایا کہ ’جب تک علی امین اور دیگر سے دوبارہ رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی گئی، ریلی اسلام آباد میں داخل ہو چکی تھی، اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی‘۔
ذرائع نے بتایا کہ بشریٰ بی بی کا رویہ جارحانہ تھا، انہوں نے وزیراعلیٰ گنڈاپور کی بات سننے سے انکار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ پارٹی چیئرمین ویڈیو کال کے ذریعے ان سے براہ راست بات کریں لیکن تکنیکی اور دیگر مسائل کی وجہ سے یہ ممکن نہیں تھا۔