کالم /بلاگز

عظیم حریت رہنما (حصہ دوم)

تحریر: محمد حارث ملک زادہ
‎@HarisMalikzada
میر واعظ عمر فاروق
میر واعظ عمر فاروق 23 مارچ 1973ء کو سر ی نگر ، مقبوضہ جموں کشمیر میں پیدا ہوئے، سرینگر کے برن ہال سکول کے طالب علم تھے، آپ نے اسلامیات میں پوسٹ گریجویٹ ڈگری حاصل کی اور کشمیر یونیورسٹی سے اسی میں پی ایچ ڈی کی17 سال کی عمر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں والد میر واعظ مولوی فاروق کے قتل کے بعد ، عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنما نے 23 کشمیری حریت پسند تنظیموں کو آل پارٹیز حریت کانفرنس (اے پی ایچ سی) میں شامل کیا۔ اکتوبر 2014 میں آپ کو رائل اسلامک اسٹریٹجک اسٹڈیز سنٹر اردن نے 500 بااثر مسلمانوں میں شامل کیا۔ میر واعظ عمر پچھلے کئی برس سے گھر میں نظر بند ہیں، کئی دفعہ انہیں پاکستانی جاسوس کا جھوٹا الزام لگا کر جیل میں جسمانی تشدد کیا جاتا کہ ان میں مقبوضہ جموں کشمیر کی آزادی کا حوصلہ کم کرسکیں لیکن آج تک ناکام ہی رہے ۔عمرفاروق کئی دفعہ عالمی سطع پر مقبوضہ جموں کشمیر کی آزادی کی آوازیں بلند کی ہیں، بھارتی ہر تشدد اور ظلم کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، اتنی کوشش کی کئی کئی دن کھانا نہیں دیا ، سونے نہیں دیتے جس سے تمام حریت رہنما جسمانی طور پر کمزور ہوگئے لیکن آزادی کی امید ختم نہیں ہوسکی، آج تک نوجوانی سے کر جدوجہد میں مصروف عمل ہے، کبھی جیلوں میں قید بھی گھر میں نظر بند، بیرونی دنیا سے منقطع رکھا مگر آج تک ایک ہی نعرہ مقبوضہ جموں کشمیر کی بھارت سے آزادی چاہیے۔ 5 اگست 2019 کے بھارتی اقدام پر کہا کہ بھارت کب تک مقبوضہ جموں کشمیر پر ظلم ڈھاتا رہے گئے، آرٹیکل کی واپس کرانے کے لیے شدید احتجاجی سرگرمیاں شروع کی لیکن کرفیو لگا، تمام حریت رہنماؤں کو گھر میں نظر بند کردیا اور کئی رہنما کاکوئی اتہ پتہ نہیں کہ وہ کس حال میں ہیں لیکن اس وقت مقبوضہ جموں کشمیر پر بھارتی حکومت کی کٹھ پتلی حکومت راج کررہی جو بھارتی ظلم پر مکمل خاموش ہے۔
یاسین ملک
یاسین ملک 3 اپریل 1966 کو سری نگر مقبوضہ جموں کشمیر میں پیدا ہوئے، آپ نے ایس پی کالج سرینگر سے گریجویشن مکمل کی تھی ، اپ کا بیشتر علم خود حاصل کیا گیا ہے جبکہ انہوں نے مختلف جیلوں میں اپنا وقت گزارا۔ یاسین ملک کو علامہ اقبال کی شاعری اور امام غزالی کی تحریریں پسند ہیں۔ یاسین ملک بیان کرتے ہیں نوجوانی میں سیکورٹی فورسز کی طرف سے سڑکوں پر تشدد کا مشاہدہ کیا تھا، 1980 میں فوج اور ٹیکسی ڈرائیوروں کے درمیان جھگڑے کے بعد ظلم و بربریت اور کرفیوں کیخلاف آزادی کے لیے ایک پارٹی تشکیل دی نام ہے تالا پارٹی ، جس نے ایک انقلابی محاذ تشکیل دیا۔ جیل میں ریمانڈ کی وجہ سے بائیں کان میں بہرا پن ہوا اور چہرہ جزوی طور پر مفلوج ہو گیا۔جیل سے رہائی کے بعد ، یوسف شاہ نے اپنے آپ کو “سید صلاح الدین” کہا اور ایک گوریلا جنگجو محسوس کیا، یاسین ملک نے حامد شیخ ، اشفاق وانی اور جاوید احمد میر کے ساتھ مل کر جے کے ایل ایف میں شامل ہوگئے،مارچ 1990 میں اشفاق وانی بھارتی فوج کے ساتھ لڑائی میں میں شہید اور یاسین ملک زخمی ہوگئے، مئی 1994 میں ضمانت پر جیل سے رہائی کے بعد بھی مقبوضہ جموں کشمیر کی آزادی کی تحریک جاری رکھی، اکتوبر 1999 میں بھارتی جوفوج نےبھارتی ظلم و نوجوانوں کا انکاؤنٹرکے نام شہادت پرآواز بلند کی تو جعلی انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا، وہ ایک سال تک نظر بند رہا۔ جس کے بعد مختلف دورانیہ میں اپ کو رہا کیا جاتا اور بھر کبھی جیل میں قید یا گھر میں نظرِ بند کر دیا جاتا ہے جو بھارتی فوج کا ایک ڈرامہ رچایا جارہا پچھلے کئی دہائیوں سے کبھی گرفتار بھی رہا کبھی نوجوانوں کا انکاؤنٹر کردیناشامل ہے، حالیہ وقت میں باقی حریت رہنما کی طرح 5 اگست 2019 کے بعد منظرعام سے غائب کر جیل میں قید کیا ہوا ہے۔
شبیر احمد شاہ
14 جون 1953ء کو اننت ناگ مقبوضہ جموں کشمیر میں کاروباری خاندان میں پیدا ہوئے ، شبیر احمد شاہ نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ مڈل سکول اننت ناگ میں حاصل کی اور ایم آئی ہائر سیکنڈری اسکول ، اننت ناگ سے اعلیٰ ثانوی امتحان پاس کیا، لیکن مختلف طلباء کی آزادی کی تنظیموں سے وابستگی کی وجہ سے اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکا جس کے لیے بہت کم عمری میں جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ شبیر شاہ کے والد غلام محمد آفیسر تھے جو 1989 میں پولیس کی حراست میں جاں بحق ہوگئے ۔ جموں و کشمیر کے حق خود ارادیت کے لیے اپنی زندگی کے 32 سال جیلوں میں گزارنے کے بعد ، وہ “جیل برڈ” کے نام سے جانا اور اپ کو “شبیر شاہ واریئر” بھی کہا جاتا ہے، جموں و کشمیر ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی کے بانی اور صدر ہیں ۔ شبیر شاہ پہلی بار 1968 میں طالب علموں کے مظاہرے کی قیادت کرنے کی وجہ سے جیل گئے 3ماہ اور 15 دن جیل میں رہے ۔ رہائی بعد اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ینگ مینز لیگ بناکر اپنی سیاسی سرگرمیاں دوبارہ شروع کیں جس کے لیے انہیں اننت ناگ میں گرفتار کیا گیا ۔1972 میں مظاہروں کا اہتمام کیا کشمیریوں کی آزادی کا مطالبہ کیا مئی 1973 میں دوبارہ گرفتار کیا گیا ،1975 میں وزیر اعظم اندرا گاندھی اور شیخ محمد عبداللہ کے معاہدے کی مذمت کی سینٹرل جیل سری نگر میں قید کیا گیا۔ 1978 میں رہائی کے بعد 1980 میں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا انہیں 1981 میں رہا کیا گیا لیکن 1982 کے اوائل میں جب پیپلز لیگ نے کشمیر چھوڑو تحریک شروع کی تو انہیں دوبارہ گرفتار کرلیا گیا۔ ان کی گرفتاری کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے 1983 میں رہا کر دیا گیا، 1986 میں رہا کیا گیا تو ان کی صحت بگڑ گئی اور رہائی کے چند گھنٹے کے اندر انہوں نے ایک پریس کانفرنس مطالبہ کیا کہ کشمیریوں کو وہ حق دیا جائے جسے وہ “حق خود ارادیت” کہتے ہیں۔ اپریل 1988 اور اگست 1989 کے درمیان شبیر شاہ زیرزمین رہےاور اس وقت سے جیل اور گھر میں نظر بند ہے اور بیماری کی وجہ سے مقبوضہ جموں کشمیر کی آزادی کی تحریکوں میں حصہ نہیں لے پارہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker