گیارہ "ستمبر”، کیلنڈر پر اس تاریخ کو دیکھ کر بہت سے لوگ لاشعوری طور پر پڑھیں گے: آج نائن ون ون ہے!
جی ہاں، یہ ایک ایسا دن ہے جس نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا، یہاں تک کہ انسانی زبان کے اظہار کو بھی بدل دیا، اور اس واقعے کے سنسنی خیز مناظر آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہیں۔ نہ تو وہ ان تصاویر کو دوبارہ دیکھنے کی ہمت کر سکتے ہیں اور نہ ہی ان کو اپنے ذہن سے مٹا سکتے ہیں ۔
ایک اور دن جو 911 کی طرح دنیا کو اڑا کر رکھ سکتا ہے وہ 107 ہونا چاہئے: "7 اکتوبر، 2023″، فلسطین اسرائیل تنازعے کا ایک نیا دور شروع ہوا، اور لوگوں نے نیو میڈیا کے ذریعے اس دنیا میں جہنم کو براہ راست دیکھا۔ ان دونوں واقعات کی ان مشہور تصاویر نے بھی دنیا کو بار بار یہ یاد دلایا ہے کہ کسی بھی المیہ کے پیچھے ناقابل تغیر انسانی تعصب، خود غرضی، لالچ اور نفرت ہوتی ہے۔
میں ایسا نہیں کرنا چاہتا، لیکن آئیے واپس چلتے ہیں اور کچھ تصاویر دیکھتے ہیں جو ان سانحات کا ریکارڈ ہیں۔
یہ تصویر اے پی کی رپورٹر سوزین پلنکٹ کی کھینچی ہوئی مین ہیٹن سب وے اسٹیشن کے باہر سڑک پر دوڑتے ہوئے ہجوم کی تھی۔ انہوں نے بعد میں یاد کرتے ہوئے بتایا کہ لوگ میرے پاس سے بھاگنے لگے اور میں ساکت ہو گئی، لیکن میں نے پیچھے مڑنے اور بھاگنے سے پہلے تصاویر لینا شروع کر دیں۔ بھاگتے ہوئے میں سوچ رہی تھی کہ میں اپنی جانب گرنے والی 100 منزلہ عمارت کو کیسے عبور کر سکوں گی ۔
مشہور 911 تصاویر میں دل و دماغ کو سب سے زیادہ جھنجوڑنے والی تصویریں اونچی عمارتوں کے منہدم ہونے کی تصاویر نہیں ، بلکہ وہ تصاویر ہیں جو جائے وقعہ پر موجود لوگوں کے چہروں پر تاثرات کی ہیں ، اور نیچے اس تصویر میں خاتون کے تاثرات، جو پوری انسانیت کے رد عمل کی نمائندگی کرتی ہیں۔
نیچے ایک اور تصویر ہے جو اس شخص کے چہرے کی ہے جو 9 اکتوبر، 2023 کو غزہ میں موجود ایک فلسطینی شخص ہے جو اپنی چھوٹی بہن کی لاش اٹھائے ہوئے ہے ۔ اسرائیلی فوج کی بمباری میں مرد کی گود میں یہ معصوم بچی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔
دوسری تصویر بھی 9 اکتوبر 2023 کو کھینجی گئی ، چھ ماہ کی سما الواڈیا کو غزہ کے ملبے سے نکالا گیا اور بعد میں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسی۔
لوگ اس طرح کی تصاویر دیکھنا مزید برداشت نہیں کر سکتے ۔ لیکن میں ساتھ ہی یہ سوچ رہا ہوں کہ ہمیں اس طرح کے سانحے کا سامنا کیسے کرنا چاہئے؟
میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ سب سے پہلے ہمیں ایک رویہ اپنانا چاہیے کہ برائی اور تشدد کے سامنے ہم لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ غصہ اور مذمت وہ رویے ہیں جو ہر کسی کو اپنانے چاہئیں کیونکہ اس کا تعلق انسانیت سے ہے ۔ شہریوں کے خلاف دہشت گرد انہ حملے جہاں کہیں بھی ہوتے ہیں ان کی مذمت کی جانی چاہیے، چاہے وہ افراد ہوں، دہشت گرد تنظیمیں ہوں یا پھرریاستی دہشت گردی ہو ۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس بات کی گہری عکاسی ہونی چاہیے ہے کہ کس طرح بین الاقوامی برادری مل کر دہشت گردی کے خطرے کا مقابلہ کر سکتی ہے؟ جاری تشدد اور جنگ کی بنیادی وجوہات اور جڑیں کہاں ہیں اور انہیں کیسے ختم کیا جائے؟ یہ سوچ نہ صرف عام لوگوں کی ہونی چاہئیے بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری کے ہر رکن اور یقیناً ان حکومتوں اور سیاست دانوں کو غور کرنا چاہیے جنہوں نے ذاتی طور پر یہ انسانی المیے پیدا کیے ہیں لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ ان کے پاس اب بھی ضمیر نام کی کوئی شے موجود ہو ۔
اس کے علاوہ، ہمت. ہم میں دہشت گردی اور انسانی دنیا کے بہت سے تعصبات، تکبر، ناانصافی، نفرت اور یہاں تک کہ برائی اور تشدد کے سامنے انکار کرنے کی ہمت ہونی چاہئے۔تاہم ہمت کے مظاہرے کا کہنا ، ہمت کرنے سے کہیں زیادہ آسان ہے۔ آج کی دنیا میں بے لگام اور بڑے پیمانے پر بالادستی اور دھمکیوں کے سامنے، کتنے لوگ اور کتنے ممالک میں انکار کرنے کی ہمت ہے؟
ہمت کی بات کرتے ہوئے مجھے ایک چینی نژاد فلائٹ اٹینڈنٹ تنگ یوئے وے کی یاد آتی ہے جسے 911 کے دن طیارے میں ہائی جیک کر لیا گیا تھا۔ اپنی زندگی کے آخری لمحات میں، انتہائی خوف و ہراس کا سامنا کرتے ہوئے، اس لڑکی نے پرسکون لہجے میں گراؤنڈ کنٹرول سینٹر کو ہائی جیکنگ کی اطلاع دی۔ اسی تبادلے پر امریکہ نے فوری طور پر ملک بھر میں تمام پروازوں کو گراؤنڈ کرنے کا حکم دیا جس کی بدولت زیادہ نقصانات کی روک تھام ممکن ہوئی ۔ دنیا کے سامنے تنگ یوئے وے کی آخری آواز یہ تھی کہ ‘ہمارے لیے دعا کریں۔’ ”
"ہمارے لئے دعا کریں”، یہ آخری درخواست ہے جو خوفناک تشدد کے متاثرین زندہ رہنے والے ہم لوگوں کے لئے چھوڑ دیتے ہیں، اور میں سمجھتا ہوں کہ اس جملے میں "ہم” صرف تشدد کے شکار افراد نہیں ہیں، بلکہ ہم سب زندہ لوگ بھی ہیں، اور مستقبل میں ہمارے بچے بھی.
آج 911 ہے ۔آئیے ہم مرنے والوں کے لیے ایک لمحے کی خاموشی اختیار کریں، بہادروں کو خراج عقیدت پیش کریں، دنیا سے امن کی اپیل کریں اور انسانیت کے لیے دعا کریں۔