حمیرا الیاس
ماڈرن ہونے کا مطلب مادرپدرآزادی نہیں بلکہ اس کا مطلب زمانے سے آہنگ ہونا اور زمانے کی بدلتی تبدیلیوں کو قبول کرکے اس سے فائدے سمیٹنا ہے۔ جیسے کل تک موبائل نہ تھا لیکن آج موبائل ہے اور ہمارے کئی کام پورے کر رہا ہے ہم اسے اپنا چکے ہیں اور اس سے مستفید ہورہے ہیں۔
آج زمانہ بہت بدل چکا ہے آج کا دور ڈیجیٹلائزیشن کا ہے دنیا میں ڈیجیٹل معیشت بہت پھل پھول رہی ہے جس کے ثمرات سے پاکستانی خواتین اچھی طرح مستفید ہوسکتی ہیں۔ اس مضمون میں اسی کا ذکر کروں گی کہ کیسے یہ خواتین کی زندگی بدل کر انہیں مالی طور پرمستحکم اور بااختیار بناسکتا ہے۔ اور اس میں انہیں کون سے چیلینجز درپیش ہیں۔
ڈیجیٹلائزیشن اور ڈیجیٹل معیشت کیا ہے؟
ڈیجیٹلائزیشن دراصل ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کا استعمال کرکے کاروبار ماڈل کو تبدیل کرنے، نئی آمدنی اور اس کی ویلیوایشن بڑھانے کا عمل ہے۔ جبکہ ڈیجیٹل معیشت سے مراد وہ معاشی سرگرمیاں ہیں جو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی مدد سے افراد، کاروبار، آلات، ڈیٹا اور آپریشنز کو جوڑنے سے ابھرتی ہیں۔ یہ آن لائن رابطوں اور اور لین دین کا احاطہ کرتی ہیں جو انٹرنیٹ ، موبائل ٹیکنالوجی ، بگ ڈیٹا اور انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی جیسے شعبوں کے ذریعے انجام دیا جاتا ہے۔
پہلی بار ڈیجیٹل معیشت کی اصطلاح 1995 میں ڈان ٹیپسکوٹ نے اپنی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب دی ڈیجیٹل اکانومی: پرومیس اینڈ پریل ان دی ایج آف نیٹ ورکڈ انٹیلی جنس میں استعمال کی تھی۔
ابتدائی ادوار میں ، ڈیجیٹل معیشت کو انٹرنیٹ معیشت ، نئی معیشت یا ویب معیشت کہا جاتا تھا کیونکہ اس کا انحصار انٹرنیٹ رابطوں پر تھا۔ ایک اور تعریف کے مطابق اس کا مطلب صرف انٹرنیٹ سے حاصل کردہ معاشی فوائد ہیں۔ تاہم ماہرین اقتصادیات اور کاروباری رہنما کا اصرار ہے کہ ڈیجیٹل معیشت ، انٹرنیٹ معیشت کی نسبت ترقی یافتہ اور پیچیدہ ہے۔
کہتے ہیں شر کے پیچھے خیر کا پہلو بھی چھپا ہوتا ہے نومبر 2019 سے شروع ہونے والی نوول کرونا وائرس وبا دنیا پر ایک عذاب کی شکل میں نازل ہوئی تھی جس نے دنیا کا مستقبل وقتی طور پر تاریک کردیا تھا تاہم اس نے ڈیجیٹل اقتصادی ترقی کو مزید تیز کیا کیونکہ لاک ڈاؤن اور سماجی دوری کے دوران ریموٹ ورک ، آن لائن شاپنگ ، ٹیلی میڈیسن اور ڈیجیٹل تفریح ضروری ہوگئی تھی۔
عالمی اقتصادی فورم کی پیشگوئی ہے کہ اگلے 10 سال میں کاروبار میں ڈیجٹیل کاروبار کا حصہ 70 فیصد تک ہوگا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ڈیجیٹل معیشت تیزی سے ترقی کررہی ہے اور لوگوں کے طرز زندگی کو نئے سرے سے استوار کررہی ہے۔
ڈیجیٹلائزیشن اور خواتین
ڈیجیٹلائزیشن جہاں پڑھے لکھے پیشہ ورافراد اور روایتی کاروباری افراد اس کے ثمرات سے مستفید ہو رہے ہیں وہیں خواتین خاص کر کم پڑھی لکھی گھریلو خواتین کی زندگیوں میں بھی اس سے انقلابی تبدیلی رونما ہورہی ہیں۔
ہمارے معاشرے میں خواتین کا باہرجاکر کام کرنے کا تناسب بہت کم ہے اگر ان کے پاس کوئی ہنر یا ڈگری نہ ہوتو مشکلات مزید بڑھ جاتی ہیں۔ پھر ہراسگی اور امتیازی رویہ اس کے علاوہ ہے۔ پاکستان میں خواتین ابھی اتنی آزاد نہیں ہوئی کہ مارکیٹ میں بیٹھ کر مردوں کے شانہ بشانہ کاروبار کرسکے۔
تاہم اب ڈیجیٹلائزیشن نے خواتین کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ گھر کی محفوظ چاردیواری سے کاروبار کرکے مالی استحکام حاصل کرسکیں خاص کر وہ خواتین جس کے پاس ڈگری نہیں یا پھر کم پڑھی لکھی ہیں۔
کرونا جہاں کاروباری بندش لایا وہیں اس نے نئی کاروبار بھی کھولے جو خواتین کے لئے کسی نعمت سے کم نہ تھے ۔ اب خواتین اس سے پوری طرح مستفید ہورہی ہیں ۔ وبا نے پاکستان سمیت دنیا بھر میں آن لائن کاروبار اور شاپنگ کو فروغ دیا اور بہت سی خواتین نے اس موقع کو آسمانی مدد گردانا اور محدود پیمانے پر کام شروع کئے جو ترقی ترقی کرتے کرتے اب اچھے خاصے کاروبار بن چکے ہیں۔
کامیابی کی ایک داستان
مدیحہ ان خواتین میں سے ایک جنہوں نے ڈیجیٹلائزیشن سے فائدہ اٹھایا اور آج کامیاب کاروبار کی مالک ہیں ۔ کرونا کے دوران جب تمام کاروبار ٹھپ ہوگئے تو انہوں نے متبادل کی تلاش شروع کی اور سب سے پہلے پاکستان سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کی ساتھ ساتھ اسے سیکھا اور سرمایہ کو بڑھایا اور پھر آن لائن شاپنگ کی بڑھتی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے کپڑے کا کاروبار شروع کردیا ہے اور اب ان کا کاروبار خاص پھیل چکا ہے۔ ایک چھوٹے شہر سے تعلق رکھنے والی مدیحہ کے لئے کرونا وبا کے 3 برس نعمت ثابت ہوئے وجہ یہ تھی کہ انہوں نے ہمت ہارنے کی بجائے دور حاضر کے تقاضے کو سمجھا اور اس سے فائدہ اٹھایا ۔
پاکستانی معاشرے میں خواتین کو کام کے لئے گھروالوں خاص شریک حیات کا تعاون نہیں ملتا لیکن مدیحہ اس میں بھی خوش قسمت ثابت ہوئی انہیں نہ صرف اپنے شریک حیات کا مکمل تعاون ملا بلکہ وہ ان کا ہاتھ بھی بٹاتے ہیں اور باہر کے تمام کام جیسے مال وصول کرنا اور بھیجنا وغیرہ وہی کرتے ہیں۔
مدیحہ جیسی کئی مثالیں ہمارے معاشرے میں ہیں جو مختلف آن لائن کام کررہی ہیں وہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے مختلف سامان فروخت کررہی ہیں۔ کچھ خواتین اب پکوان کے کاروبار سے بھی وابستہ ہوگئی ہیں اور گھر کے تیار کردہ پکوان آن لائن فروخت کرکے اپنی صلاحیتوں کو مزید نکھارہی ہیں کیونکہ دفاتر میں لوگوں کی بڑی تعداد ہوٹل کی بجائے گھر کے پکے کھانوں کو ترجیح دیتی ہے۔
خواتین کون سے آن لائن کام کرسکتی ہیں اور کیسے انہیں کیا جاسکتا ہے یہ ایک تفصیلی موضوع ہے جس کا تذکرہ میں آنے والے مضامین میں کروں گی۔ اس مضمون کے اختتام پر ان مشکلات پر بات کرلیتے جو خواتین کو آن لائن کاروبار میں درپیش ہیں اور ان کا سدباب کیسے کیا جاسکتا ہے۔
آن لائن کاروبار اور خواتین کی مشکلات
جہاں پھول ہوں وہاں کانٹے بھی ہوتے ہیں اور ہرآسائش کی ایک قیمت بھی چکانا پڑتی ہے جہاں خواتین کو آن لائن کاروبار سے فوائد ملے ہیں وہیں انہیں آن لائن ہراسگی جیسے بڑے مسئلے کا بھی سامنا ہے اس کے علاوہ کاروباری رقابت اور بدلتے رجحان بھی آن لائن کاروبارکے بڑے چیلنجز ہیں اس کے علاوہ تعلیم و تربیت کی کمی بھی کاروبار آگے بڑھانے میں مشکلات کا سبب بن رہی ہے۔
پاکستان میں ڈیجیٹل ترقی ابتدائی دورمیں ہے لوگوں میں شعور اور تعلیم کی کمی ہے یہاں کچھ مرد حضرات عورت ہو یا اس کی آواز اسے تسکین کی چیز ہی تصور کرتے ہیں۔ یہ سب تعلیم و تربیت کے فقدان کی بدولت ہے۔ آن لائن کاروبار کے دوران آن لائن سیشن بھی ہوتے ہیں جس میں بعض افراد بے ہودہ میسج کرتے ہیں کہ آپ کی آواز بہت خوبصورت ہے تو آپ خود بھی بہت خوبصورت ہوں گی۔ اس طرح کی صورتحال بعض اوقات خواتین کے لئے شرمندگی کا سبب بنتے ہیں کیونکہ ان کے خاندان کی زیادہ خواتین بھی یہ سیشن دیکھتی ہیں اور اس طرح کمٹنس مشکلات بڑھادیتے ہیں۔ ان باکس میں بے ہودہ پیغامات، آڈیو اور کبھی وڈیو کالز بھی معمول کا حصہ ہے۔
ہراسگی اور سائبر قوانین
ہراسگی کی وجہ سے کافی خواتین آن لائن کاروبار کو خیرباد کہہ دیتی ہیں لیکن کچھ ہمت کے ساتھ ان پست ذہن کے افراد کا مقابلہ کررہی ہے۔ زیادہ تر خواتین ایسے افراد کو بلاک کو جان چھڑاتی ہیں لیکن وہ پھر نئے نمبروں سے تنگ کرنا شروع کردیتے ہیں۔
میری روز ایسی کئی خواتین سے بات ہوتی ہے جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آن لائن کاروبار کرنے والی خواتین چاہے پڑھی لکھی ہوں یا کم کم پڑھی لکھی ، انہیں ڈیجیٹل حفاظت بارے قانون کا علم نہیں اور نہ ہی وہ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے حفاطتی ہتھیاروں بارے معلومات رکھتی ہیں اس لئے بلاک کرنا ہی اس وقت ان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔
پاکستان میں سائبرکرائم کی روک تھام کا قانون موجود ہے اس کے لئے خواتین کو اس بات کی تربیت بھی حاصل کرنا چاہئے تاکہ وہ ہراساں اور فراڈ کرنے والوں سے خود کو محفوظ رکھ سکتی ہیں۔ میں اس بارے بھی ایک تفصیلی مضمون بھی جلد آپ کی نذر کروں گی۔
حاصل کلام
ڈیجیٹلائزیشن ایک ابھرتی معیشت ہے یہ گھریلو اور کم پڑھی لکھی خواتین کو روزگار کا موقع دیتا ہے ۔ کئی طرح کے آن لائن کاروبار ہیں جس سے خواتین فائدہ اٹھاکرنہ صرف گھر کی کفالت کرسکتی ہیں بلکہ مالی استحکام بھی حاصل کرسکتی ہیں۔
خواتین کو چاہیئے اپنے کاروباری اور ذاتی فون نمبرز اور سوشل میڈیا اکاونٹس الگ الگ رکھیں تاکہ انہیں پریشانی نہ ہو اپنے شریک حیات کو صورتحال سے آگاہ رکھیں۔
جو بھی خواتین آن لائن سپیس میں جاتی ہیں چاہے وہ کاروبار، نوکری یا تفریح کے لئے ہو ان کو اپنی حفاظتی ہتھیاروں کا نہ صرف پتہ ہو بلکہ ان سے لیس بھی ہونا چاہئے صرف اسی صورت میں وہ انٹرنیٹ کے وسیع آسمان میں لمبی اور محفوط پرواز کرسکیں گی ۔
کاروبار کا محفوظ طریقہ اپنائیں چند آوارہ اور بدقماش افراد کی وجہ سے روزی روٹی سے کنارہ کشی اختیار کرنا عقلمندی ہرگز نہیں ہے۔
نوٹ: کالم نگار ماہر تعلیم ، لائف مینٹور ، جے ایم ایچ اے کنسلٹینسی (پرائیوٹ) کی ڈائریکٹر ایڈمن و ایچ آر کے علاوہ رابطہ ہولڈنگ (پرائیوٹ) لمیٹڈ ، رابطہ میڈیا سروسز (پرائیوٹ) لمیٹڈ اور رابطہ فاؤنڈیشن کی چیئرپرسن بھی ہیں۔
جے ایم ایچ اے کنسلٹنسی (پرائیوٹ لمیٹڈ) خواتین کی مالی خودمختاری کے لئے اپنی طور پر کوششیں کررہا ہے ۔ ہمارا 3 سالہ معاشی استحکام پروگرام نہ صرف آپ کو مالی اعتبار سے مستحکم کرسکتا ہے بلکہ کسی بھی مشکل گھڑی سے نکلنے میں معاون بھی ثابت ہوتا ہے۔
سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کے لئے ایک بار مشورہ ضرور کریں۔
00923275356028
00971554342639