
اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے صحافی خالد جمیل کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا۔ صحافی خالد جمیل پر سائبر کرائم ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہے، اور ایف آئی اے نے عدالت سے صحافی کے 10 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تھی۔
صحافی خالد جمیل کو گزشتہ روز اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا تھا، اور ان پر سائبر کرائم ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا، جس پر آج ان کو اسلام آباد کچہری میں پیش کیا گیا۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد کے جوڈیشل مجسٹریٹ شبیر بھٹی نے کیس کی سماعت کی، صحافی خالد جمیل کی طرف سے جہانگیر جدون اور نوید ملک عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
ایف آئی اے نے صحافی کے 10 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی، صحافی کے وکلاء کی جانب سے ریمانڈ کی استدعا کی مخالفت کی گئی، وکیل نوید ملک نے کہاکہ پاکستان کے اندر آزادی اظہار رائے کا حق ہر شہری کو حاصل ہے۔
بیرسٹر جہانگیر جدون نے کہاکہ ایف آئی اے نے اپنے ہی بنائے ہوئے ایس او پیز کی خلاف ورزی کی ہے، صحافی کو گرفتار کرکے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ ریمانڈ تو بنتا ہی نہیں کیس سے ڈسچارج کیا جائے۔
عدالت نے وکلاء کے دلائل کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کیا، اور صحافی خالد جمیل کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا گیا۔
یاد رہے کہ صحافی خالد جمیل پر ہونے والی ایف آئی آر میں سوشل میڈیا سے متعلق بنائے جانے والے قانون، پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ یعنی ’پیکا 2016‘ کی ترمیم شدہ دفعہ 20 بھی شامل ہے جو سوشل میڈیا پر غلط اور فیک خبروں کو پھیلانے سے متعلق ہے۔ یہ ناقابل ضمانت جرم قرار دیا گیا ہے جس پر زیادہ سے زیادہ پانچ سال قید اور دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔
ایف آئی آر میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 505 بھی شامل ہے جو ’عوام میں اضطراب یا فساد بھڑکانے‘ سے متعلق ہے۔
ایف آر میں کیا الزامات عائد کیے گئے ہے؟
ایف آئی آر میں ایف آئی اے سائبر کرائم کا کہنا ہے کہ محمد خالد جمیل کےسوشل میڈیا اکاؤنٹ ’ایکس‘ سے انتہائی دھمکی آمیز مواد اور ٹویٹس شیئر اور مشتہر کی گئیں۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ’ملزم نے جان بوجھ کر غلط اور بےبنیاد معلومات شیئر کرکے ریاست مخالف بیانیے کی غلط تشریح کی اور اسے پھیلایا، جس سے عوام میں خوف و ہراس پھیلنے کا بھی امکان ہے اور کسی کو بھی ریاست یا ریاستی ادارے یا عوامی امن کےخلاف جرم کرنے کے لیے اکسایا جا سکتا ہے۔‘
ایف آئی آر کے مطابق ’سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے الزام تراشی کر کے عام لوگوں اور ریاستی اداروں کے درمیان دراڑ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔‘
ایف آئی آر کے متن کے مطابق ملزم نے دھمکی آمیز مواد جس میں ٹویٹس اور ویڈیوز شامل ہیں کے ذریعے عوام کو عدلیہ سمیت ریاستی اداروں کے خلاف مشتعل کرنے کی کوشش کی اور اس مواد کو ریاست کے ستونوں کے درمیان بغض کا احساس پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا۔