اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سپریم کورٹ نے پاناما لیکس پر قائم مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ کا والیوم 10 جاری کرنے کی درخواست براڈشیٹ کمپنی کی جانب سے واپس لینے پر نمٹا دی۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے براڈشیٹ کمپنی کی جانب سے والیوم 10 جاری کرنے کی درخواست پر سماعت کی۔
دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ بین الاقوامی ثالثی کے لیے والیوم 10 کھولنے کا کہا گیا تھا، ثالثی کا عمل مکمل ہوچکا لہٰذا اب یہ درخواست غیر موثر ہو چکی ہے۔
براڈ شیٹ کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہ معاملہ ابھی غیر موثر نہیں ہوا جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں ثالثی عدالت میں کارروائی کا کیا بنا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وہاں معاملہ نمٹ چکا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اس وقت عدالت کے سامنے میرٹ پر بحث کے لیے درخواست نہیں ہے، اس وقت ہمارے سامنے صرف متفرق درخواست ہے۔
وکیل لطیف کھوسہ نے سوال کیا کہ والیوم 10 میں ایسا کیا ہے کہ اسے خفیہ رکھا جائے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ کو سنیں گے مگر ہمیں پتہ تو چلے کہ ہمارے سامنے درخواست کیا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے پانامہ فیصلے میں والیوم 10 کے بارے میں کوئی آبزرویشن دی تھی؟ لطیف کھوسہ نے کہا کہ آرٹیکل 19 اے کے تحت عوام کا حق ہے کہ وہ دیکھیں کیسے ملک کو لوٹا گیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہم اس طرف نہیں جائیں گے کیونکہ اس کیس میں تو ایک منتخب وزیراعظم کو ہٹایا گیا جبکہ آپ کو والیوم 10 ثالثی عدالت میں کارروائی کے لیے درکار تھا۔
جسٹس من اللہ نے لطیف کھوسہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی باتیں کرنے کے بجائے قانونی نکات تک ہی محدود رہیں، آپ یہاں پاکستانی عوام کی نہیں براڈ شیٹ کمپنی کی نمائندگی کے لیے آئے ہیں، بہتر ہو گا آپ پاکستانی عوام کی نمائندگی کی بات نہ کریں۔
اس موقع پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ براڈ شیٹ کپمنی اب والیوم 10 نہیں مانگ سکتی۔
جسٹس من اللہ نے وکیل لطیف کھوسہ سے استفسار کیا کہ کیا پانامہ کیس کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے پانامہ جے آئی ٹی والیوم 10 کا ذکر بھی کیا تھا؟ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے 5 رکنی پانامہ بینچ نے کسی کی حمایت کی تھی؟ اس موقع پر لطیف کھوسہ بولے؛ میں صرف چاہتا ہوں کہ عوام کے سامنے حقائق آئیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے لطیف کھوسہ سے کہا کہ انگریزی کا لفظ ہےریلیکس، کھوسہ صاحب آپ ریلیکس رہیں، جو بحث عدالت میں ہو رہی ہے یہ کیس سے ہٹ کر ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ براڈ شیٹ کو جائیدادوں کی تلاش کے معاوضے میں سے 20 فیصد حصہ یعنی 28 ملین ڈالرز کی ادائیگی کی جا چکی ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے موجودہ نگراں حکومت کو بہترین قرار دیتے ہوئے کہا کہ بھارت میں ایک شماریات کا ماہر ریٹائرمنٹ کے بعد بیرون ملک گیا اور تدریسی عمل جاری رکھا، جبکہ ایک بھارتی شہری کو 102سال کی عمر میں نوبل انعام ملا، پاکستان کے بہترین دماغ اس وقت حکومت میں ہیں۔
اس پر لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ بہترین دماغ اس وقت سپریم کورٹ میں بھی موجود ہیں جن کی ذمہ داری ہے ملک آئین کے مطابق چلانا، پانامہ فیصلے میں لکھا ہے کہ اداروں پر شریف خاندان کا قبضہ تھا، آج بھی تمام اداروں پران کا قبضہ ہے۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ میں ملک سے زیادہ کسی چیز سے پیار نہیں کرتا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملک کے ساتھ تو سب کو ہی محبت ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے لطیف کھوسہ سے کہا کہ وہ اپنے دلائل سے پانامہ کیس کے فیصلے پر ابہام پیدا کر رہے ہیں۔
براڈ شیٹ کے وکیل نے نے عدالت سے براڈ شیٹ والیوم 10 فراہم کرنے کی درخواست کی۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ براڈ شیٹ کی جانب سے والیوم 10 کا مطالبہ نہیں کر سکتے۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ اپنی درخواست واپس لے رہا ہوں لیکن نئی درخواست دائر کرنے کا حق محفوظ رکھنا چاہتا ہوں، جس پر عدالت نے درخواست نمٹا دی۔
واضح رہے کہ براڈ شیٹ کمپنی نے سپریم کورٹ سے چیئرمین نیب کو پانامہ پیپرز لیکس کیس کی جے آئی ٹی رپورٹ کا والیوم 10 فراہم کرنے کا حکم جاری کرنے کی استدعا کی تھی۔ براڈشیٹ کمپنی پانامہ جے آئی ٹی والیوم 10 کو برطانوی عدالت میں اسے بطور ثبوت پیش کرنا چاہتی تھی۔
جولائی 2017 میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے پاناما لیکس کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو تاحیات نااہل قراردیا تھا اورانہیں پارٹی صدارت سے ہٹا دیا تھا۔