
اسلام آباد(آئی پی ایس) سپریم کورٹ میں مقدمات سماعت کیلئے مقرر ہونے کا کیا طریقہ کار ہے؟جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس یحییٰ آفریدی نے معاملے کا نوٹس لے لیا۔
تفصیلات کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس یحییٰ آفریدی پر مشتمل بینچ نے سماعت کی۔عدالت نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو تمام ریکارڈ سمیت فوری طور پر طلب کر لیاہے،جسٹس فائزعیسیٰ نے کہاکہ میں سپریم کورٹ کا جج ہوں، 5 سال تک چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ بھی رہ چکا ہوں، لگتا ہے ایک رجسٹرار تو میرے جیسے جج سے بھی زیادہ طاقتور ہے۔سپریم کورٹ میں مقدمات سماعت کیلئے مقرر کئے جانے کے طریقہ کار سے متعلق کیس میں وقفہ کے بعد دوبارہ سماعت ہوئی۔ رجسٹرار سپریم کورٹ عشرت علی طلبی پر عدالت پیش ہوئے۔ بار بار عدالتی سوالات پوچھنے کے باوجود رجسٹرار سپریم کورٹ تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔
جسٹس قاضی فائزعیسی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس میں شفافیت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔1999کے مقدمات سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے اور ہم 2022کی اپیلیں سن رہے ہیں کوئی تو وضاحت ہونی چاہیے ۔ رجسٹرار سپریم کورٹ عشرت علی کو کچھ نہیں پتہ ہے۔ جسٹس قاضی فائزعیسی نےایڈیشنل رجسٹرار سے استفسار کیا کہ کیا آپ ڈی فیکٹو رجسٹرار کے طور پر کام کر رہے ہیں ؟ ہمیں بتائیں کہ پھر ہم کس کو بلائیں۔کیا ہم سکیشن آفیسر کو اس معاملے پر بلائیں؟ہمیں بتائیں کہ کیسز سے متعلق سپریم کورٹ کا کیا طریقہ کار ہے۔ پرانے کیسز کیوں نہیں لگائے جارہے ہیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی کا کہنا تھا کہ رجسٹرار آفس میں شفافیت ہونی چاہیے ۔سپریم کورٹ رجسٹرار آفس جو بھی کام کرے وہ تحریری صورت میں ہونا چاہیے ۔قبل ازیں عدالت نے رجسٹرار سپریم کورٹ سے متعلقہ ریکارڈ طلب کیا تھا جس کے باعث سماعت میں ساڑھے گیارہ بجے تک کا وقفہ کیا گیا تھا،۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں کس سال سے مقدمات زیر التواء پڑے ہیں؟ساڑھے گیارہ بجے رجسٹرار ریکارڈ کیساتھ پیش ہوں اور مقدمات مقرر کرنے کے طریقہ کار کی فائل دکھائیں۔قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ فائل کیوں چھپا رہے ہیں؟ رجسٹرار سپریم کورٹ عدالتی سوالات کے جواب نا دے سکے۔مقدمات مقرر کرنے کے حوالے سے شفافیت ہونا چاہیے،