
اسلام آباد(آئی پی ایس)دہشت گردی کی حالیہ لہر اور معیشت کی دگرگوں صورتحال پر وزیراعظم کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں اہم فیصلوں سے متعلق اعلامیہ جاری کرنے پر اتفاق ہوا ہے اجلاس میں سیاسی و عسکری قیادت نے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے عزم کا اظہارکیا،دہشت گرد کے سدباب کیلئے ہرممکن اقدامات اٹھانے پر اتفاق کیا گیا۔قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وزیراعظم ہاوس میں ہوا ہے جس میں مسلح افواج کے سربراہان اور وفاقی وزرا نے شرکت کی۔اجلاس میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری، وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر دفاع خواجہ آصف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر بھی شریک ہوئے۔ذرائع کے مطابق اجلاس میں ملکی سلامتی کے امور اور دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے حکمت عملی پور غور کیا گیا جبکہ پاک افغان بارڈ،سکیورٹی صورتحال اور دہشت گردی کے حالیہ واقعات کی تحقیقات پر بریفنگ دی گئی۔اس موقع پر دہشت گردی کے واقعات میں شہید ہونے والوں کیلئے دعا کی گئی۔ ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ عسکری حکام کی جانب سے قومی ایکشن پلان کے تمام نکات پر عملدرآمد یقینی بنانے سے متعلق آگاہ کیا گیا،اجلاس میں مرکز اور صوبوں کے درمیان کوآرڈینیشن بہتر بنانے کے لیے نیکٹا کے کردار،خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشتگردی کے حالیہ حملوں پر بھی بریفنگ دی گئی۔قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں اہم فیصلے کیے گئے،اجلاس میں کیے گئے فیصلوں سے متعلق اعلامیہ جاری کیا جائے گا جبکہ انیٹلی جنس اداروں کی بریفنگ کی روشنی میں قومی سلامتی کمیٹی اہم فیصلوں کی منظوری دے گی۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف سے آرمی چیف جنرل عاصم منیرنے ملاقات کی۔ وزیراعظم اور آرمی چیف کی ہونے والی ملاقات میں ملکی سلامتی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ملاقات میں بلائے گئے ملکی سلامتی کے اجلاس کے حوالے سے بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ حالیہ دہشتگردی کے واقعات اور ان کے تدراک کے حوالے سے اقدامات پر بھی گفتگو کی گئی۔ وزیراعظم اور آرمی چیف کے مابین ملاقات میں امن و امان کی صورتحال اور فوج کے پیشہ وارانہ امور سے متعلق بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔خیال رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس جمعہ کو طلب کیا گیا، قومی سلامتی کمیٹی کے اس اہم اجلاس میں ملکی معیشت اور سکیورٹی کے معاملات کے ساتھ حالیہ دہشت گردی کے واقعات اور دیگر امور پر غور کیا جائے گا اور اس کے علاوہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں شرکا کو ملک کی معیشت کے حوالے سے بریفنگ دیں گے۔وفاقی کابینہ نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ دہشت گردی کی عفریت کو جڑ سے ختم کر دیا جائے گا، امن وامان کی صورتحال پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، وفاقی کابینہ نے دہشت گردی کیخلاف مسلسل جدوجہد پرسیکیورٹی فورسز کو خراجِ تحسین پیش کیا۔واضح رہے کہ جمعرات کے روز وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے درمیان ملاقات ہوئی جس میں خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی سے متعلق ملک کے اہم ترین فیصلہ ساز فورم قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا گیا۔دونوں شخصیات کے درمیان یہ ملاقات جنرل ہیڈ کوارٹرز میں ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنس کے ایک روز بعد ہوئی ہے جہاں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کے حوالے سے تفصیلی غور اور تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔کور کمانڈرز کانفرنس کے بعد فوج کی جانب سے جاری اہم بیان میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کے عوام کی امنگوں کے مطابق دہشت گردی کے خطرات کو ختم کیا جائے گا۔اس بیان سے ظاہر ہوا کہ فوج کو دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی کے لیے اپنی تیاری کے ساتھ کسی بھی نئے شروع کیے جانے والے انسداد دہشت گردی آپریشن کے لیے سیاسی قیادت کی جانب سے اس کی اونرشپ کی ضرورت ہے۔اب تک سخت فیصلوں سے اجتناب کرنے والی اتحادی حکومت معاشی بحران کے درمیان اور آئندہ سال ہونے والے انتخابات سے قبل کوئی بھی بڑا اور فیصلہ کن آپریشن کرنے کے حوالے سے فیصلہ کرنے میں مشکلات کا شکار نظر آتی ہے۔تاہم اب یہ توقع کی جاتی ہے کہ سنگین اور نازک صورتحال کے تناظر میں بالآخر فوج کی جانب سے سامنے آنے والی رائے اور نقطہ نظر کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔گزشتہ چند مہینوں کے دوران ملک میں امن و امان کی صورت حال مزید خراب ہوئی، کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) عسکریت پسند گروپ داعش اور گل بہادر گروپ جیسے دہشت گرد گروہ ملک بھر میں حملے کر رہے ہیں۔بلوچستان میں باغیوں نے بھی اپنی پرتشدد کارروائیاں تیز کر دی ہیں اور کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ گٹھ جوڑ بنالیا ہے۔بنوں میں خیبرپختونخوا پولیس کے انسدادِ دہشت گردی ونگ کے تفتیشی مرکز پر پیش آنے والا واقعہ اور اسلام آباد میں خودکش بم حملے نے ناصرف اقتدار کی راہداریوں میں خطرے کی گھنٹی بجائی بلکہ کئی ممالک کو بھی اپنے شہریوں کی سیکیورٹی کے حوالے سے تشویش میں مبتلا کر دیا۔حالیہ واقعات کے بعد امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا اور سعودی عرب نے ایڈوائزری جاری کرتے ہوئے اپنے شہریوں سے کہا کہ وہ پاکستان میں نقل و حرکت محدود رکھیں اور غیر ضروری سفر سے گریز کریں۔ذرائع کے مطابق اجلاس کے دوران ایک اور اہم معاملہ جس پر غور و خوض کیا جائے گا وہ افغانستان کی حدود سے سرحد پار حملوں میں اضافہ ہے۔افغان طالبان طویل عرصے سے پاکستان کو عالمی برادری کے ساتھ اپنے رابطوں کے لیے ایک پل کے طور پر دیکھتے رہے ہیں لیکن وہ دونوں ممالک کے درمیان تقریبا 2600 کلومیٹر طویل سرحد پر روایتی افغان موقف سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہیں۔سرحد کی حیثیت کے حوالے سے اختلافات کے باعث اکثر دونوں افواج کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں جن میں دونوں طرف کا جانی نقصان ہوتا ہے۔ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے گزشتہ روز ہفتہ وار میڈیا بریفنگ کے دوران بھی افغانستان کے ساتھ سرحدی معاملات پر بات کی۔انہوں نے کہا کہ ہم سیکیورٹی اور بارڈر مینجمنٹ سے متعلق امور پر افغان حکام کے ساتھ مذاکرات اور بات چیت کر رہے ہیں، افغانستان نے کچھ یقین دہانیاں کرائی ہیں، ہمیں امید ہے کہ ان کی جانب سے کیے گئے وعدوں پر عمل کیا جائے گا۔تاہم اپنی بریفنگ کے دوران انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ طالبان حکام کی جانب سے پاکستان کو کیا یقین دہانیاں کرائی گئی ہیں۔دوسری جانب، کچھ غیر ملکی مشنز کی جانب سے جاری کردہ ایڈوائزری سے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ نے یقین دلایا کہ پاکستانی سیکیورٹی ایجنسیاں اپنے شہریوں کے ساتھ ساتھ یہاں مقیم غیر ملکی باشندوں کی حفاظت کی مکمل اہل اور اس کے لیے تیار ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم ملک میں موجود تمام غیر ملکی سفارتی مشنز کی حفاظت اور سلامتی کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور اس سلسلے میں انہیں اپنی مکمل حمایت اور تعاون کا یقین دلاتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ملک میں بدامنی پیدا کرنے کی کوشش کرنے والوں کے ساتھ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے سختی سے نمٹیں گے۔