دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے، فوج اور قوم نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں جس میں مجموعی طور پر 80,000 سے زائد افراد معذور و زخمی ہوئے یا اپنی جان سے ہاتھ گنوا چکے ہیں۔ علاوہ ازیں، معیشت کو 150 ارب امریکی ڈالر کا نقصان الگ ہوا۔ دہشت گردی کے ناسور کو ختم کرنے کے لیے، دیگر فوجی کارروائیوں کی بدولت حاصل ہونے والی کامیابیوں کو مستحکم کرنے اور پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کو مزید یقینی بنانے کے لیے؛ پاک فوج فروری 2017 میں شروع کیے گئے آپریشن ردالفساد میں مسلسل کاوشیں کر رہی ہے جس کے تحت نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد، سابقہ فاٹا کو مرکزی دھارے میں لانا اور انتہا پسندی کو کنٹرول کرنے میں حکومتی اقدامات میں حصہ لینا شامل ہے۔آپریشن ردالفساد کے دوران ملک بھر میں کل 2 لاکھ سے زائدآپریشن کیے گئے۔ جس میں 72 ہزار سے زائدہتھیار برآمد ہوئے جبکہ 50 لاکھ سے زائد گولہ بارود بھی برآمد کیا گیا۔ایک محفوظ ماحول پیدا کرنے کے لیے فوج نے خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں مجموعی طور پر جو قربانیاں دیں ان میں 6,074 شہید اور 20,603 زخمی اہلکار شامل ہیں۔ جبکہ 2009 سے اب تک 12,914 دہشت گرد مارے جا چکے ہیں۔اب تک 95 فیصد سے زیادہ ٹی ڈی پیز (عارضی طور پہ بے گھر افراد) اپنے علاقوں میں واپس آباد ہو چکے ہیں۔ مجموعی طور پہ 80 ارب سے زیادہ رقم ان افراد کی بحالی، آبادکاری، نقصانات کے ازالے اور ماحولیاتی امداد کے طور پہ ان میں تقسیم کی جا چکی ہے-فوجی آپریشنز کے سلسلے میں گرفتار ہونے والے اور ہتھیار ڈالنے والے افراد جو کسی بڑے پیمانے کی دہشت گردی میں ملوث نہیں تھے ایسے لوگوں کی اپنی سزا پوری کر لینے کے بعد قومی دھارے شامل کرنے کے لیے نفسیاتی ٹریننگ کا اہتمام De Radicalization سنٹرز کے ذریعے کیا گیا جس سے گزر کر تقریبا 5 ہزار سے زائد افراد اب معاشرے میں مثبت کردار ادا کر رہے ہیں۔پاکستانی قوم کی مدد سے فوج کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کی بدولت غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے پاکستان میں آج ایک محفوظ ماحول موجود ہے اور پاکستان کے سیاحتی شعبے کو بھی تقویت ملی ہے-پاکستان کی پہلی قومی سلامتی پالیسی قومی سلامتی ڈویژن نے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر ترتیب دی تھی۔ یہ دستاویز ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے اور طویل مدتی ترقی اور قومی پالیسی کے مقاصد کے حصول میں رہنمائی کا کام سر انجام دے رہی ہے۔ پاک فوج اس سارے عمل کا باقاعدہ حصہ تھی اور قومی سلامتی سے متعلق امور پر ادارہ جاتی معلومات فراہم کرنے میں پیش پیش رہی ۔
ویسٹرن زون مینجمنٹ
پاکستان-افغانستان اور پاکستان- ایران سرحد کے ساتھ سرحدی علاقوں کی سلامتی اور نتیجتا خوشحالی کو یقینی بنانے کے لیے، 2018 میں ایک جامع ویسٹرن زون مینجمنٹ کا تصور پیش کیا گیا جس پر عملدرآمد جاری ہے۔ اس حکمت عملی کے اہم نکات درج ذیل ہیں:
بارڈر مینجمنٹ
سرحدی دہشت گردی، اسمگلنگ کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی مالی معاونت کو کنٹرول کرنے کے لیے جامع طریقہ کار وضع کیا گیا ہے جس میں درج ذیل احداف کی تکمیل کا عمل جاری ہے:
باڑ لگانا
پاکستان افغانستان بارڈر کی باڑ تقریبا 95% مکمل کر لی گئی) کل2268 کلومیٹر(
پاک ایران بارڈر کی باڑ تقریبا 81 % مکمل کر لی گئی ) کل 1080 کلومیٹر (
سرحدی قلعے(Border Forts)
پاکستان اور افغانستان بارڈر پر تقریبا – 79% علاقوں میں تعمیر کیے جا چکے ہیں
پاک ایران بارڈر پر تقریبا 18% علاقوں میں تعمیر کیے جا چکے ہیں
بارڈر ٹرمینلز (Border Terminals)
افغان سرحد پر باڑ لگانے کا کام دونوں طرف کے لوگوں کے تحفظ کے ساتھ ساتھ تجارت کو منظم کرنے کی کوشش میں کیا گیا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے 5 جنوری 2022 کو ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ "سیکیورٹی، بارڈر کراسنگ اور تجارت کو منظم کرنے کے لیے پاک افغان سرحد پر باڑ کی ضرورت ہے۔ اس کا مقصد لوگوں کو تقسیم کرنا نہیں بلکہ ان کی حفاظت کرنا ہے۔
پاک افغان سرحد پر5 بارڈر ٹرمینلز تیار کیے گئے جن میں چمن، طورخم ، انگور اڈا، غلام خان اور خر لاچی شامل ہیں۔
2 اضافی کراسنگ پوائنٹس ارندو (چترال)اور بن شاہی (دیر)سرحد کے دونوں طرف آباد منقسم قبائل کی سہولت کے لیے کھولے جا رہے ہیں۔
کراسنگ پوائنٹس پر پیدل چلنے والوں کی نقل و حرکت کی سہولت کے لیے شناختی تصدیق اور الرٹ سسٹم (IVAS) نصب کیا جا رہا ہے۔
چمن اور طورخم بارڈر ٹرانزٹ پر جدید ترین (انٹرنیشنل ٹرانزٹ ٹریڈ مینجمنٹ سسٹم) کی سہولت مکمل ہو گئی ہے۔
فوجی موجودگی میں بتدریج کمی
فوج / ایف سی چیک پوسٹوں اور مشترکہ چیک پوسٹوں میں بڑی حد تک کمی واقع ہوئی ہے جس میں 22 جون کے بعد تسلسل سے پوسٹیں ختم کی جارہی ہیں۔
علاوہ ازیں ایران کے دورے پر آنے والے زائرین کی سہولت اور سیکورٹی کے لیے 2021 میں مطلوبہ بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے ساتھ ساتھ ریگولیٹری فریم ورک کی منظوری ,پاکستان کی سیکیورٹی کے لیے آرمی فنڈنگ کے ذریعے واخان بارڈر ایریا کی نشان دہی جیسے اقدامات بھی قابل ذکر ہیں.
لائن آف کنٹرول
لائن آف کنٹرول پرکمزور پوزیشنوں پر توجہ کے ساتھ دفاع کی بہتری (گزشتہ 5 سالوں میں 5.73 بلین روپے خرچ کیے گئے) کو عمل میں لایا گیا
اس کے علاوہ ہندوستان کی گولہ باری سے محفوظ رکھنے کے لییشہریوں کے لیے 2249 کمیونٹی بنکرز بھی تعمیر کیے گئے۔
پیدل چلنے والوں اور کارگو کی باقاعدہ نقل و حرکت کو یقینی بنانے کے لیے 5 بارڈر ٹرمینلز بھی تیار کیے گئے۔
پیغامِ پاکستان – دہشت گردی کی نظریاتی شکست
دہشتگردوں کیجھوٹے بیانیے کے مقابلے میں تمام مسالک سے تعلق رکھنے والے پاکستانی مذہبی علما و اسکالرز کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے پیغام پاکستان فتوی کے اجرا میں فوج نے کلیدی کردار ادا کیا۔، جس کے تحت عسکریت پسند گروپوں کے انتہا پسند نظریے کو مسترد کیا گیا اور ان کی وحشیانہ کارروائیوں بشمول خودکش حملوں کو اسلام کے بنیادی نظریے کے خلاف قرار دیا-
پیغام پاکستان فتوی کی توثیق پاکستان کی کونسل آف اسلامک آئیڈیالوجی نے بھی کی ہے، یہ ادارہ حکومت کو اسلام کے مطابق قانون سازی میں مشاورت فراہم کرتا ہے۔
افغانستان سے انخلا اور سکیورٹی
علاقائی سلامتی کے مفاد میں پاکستان نے ہمیشہ افغانستان میں بات چیت کے ذریعے سیاسی تصفیے کا پرچار کیا ہے۔
پندرہ اگست کے انخلا کے بعد پاکستان نیکابل سے آنے والی 266 بین الاقوامی پروازوں کو اترنے کی اجازت دی گئی اور 181 کو اوور فلائٹس کی اجازت دی گئی۔ پاک فوج کی امداد سیکابل سے 31 ممالک سے تعلق رکھنے والے 13,737 غیر ملکی شہریوں کی آمدورفت میں بھی مدد کی گئی۔ اس کے علاوہ، 5,09,168 افراد کو زمینی آمدورفت کی سہولت فراہم کی گئی۔
پاک فوج نے افغانستان میں امریکی انخلا کے بعد دمغربی سرحد پر سیکورٹی بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
متفرق خدمات
علاوہ ازیں، پاک فوج کے دو سپیشل سیکیورٹی ڈویژنز سی پیک کے تمام منصوبوں اور چینی باشندوں کو جو کہ پاکستان میں سی پیک کے ترقی پسند منصوبوں پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں کی حفاظت پر مامور ہیں ۔ پاک فوج کی اس سلسلے میں خدمات کو چین کے صدر نے بھی سراہا اور جنرل باجوہ کی قیادت میں پاک فوج کی کاوشوں کو سی پیک کے لئے کلیدی قرار دیا۔
پاک فوج نے معمول کے مطابق، سنگین حالات میں موثر سیکیورٹی کے لیے سویلین حکام کی مدد کی۔ او آئی سی سیشنز، پی ایس ایل، کے پی ایل، بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی وغیرہ کے کامیاب انعقاد نے پاکستان میں سلامتی کے عالمی خدشات کو دور کرنے میں مدد کی۔
مردم شماری 2017 کے دوران ایمپاورڈ ان ایڈ آف سویلین پاور(Empowered in Aid of Civilian Power)، نئے ضم شدہ اضلاع کے انتخابات، 2019 جی بی کے انتخابات، 2020 میں آزاد کشمیر کے انتخابات، 2021 & 2022 میں بلدیاتی انتخابات (کے پی کے، بلوچستان) اور متعدد ضمنی انتخابات فوج کی محنتی شرکت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔