تحریر: ناز پروین
بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویدار ہے۔ یہاں ہندوؤں کے علاوہ مسلمان، عیسائی، سکھ، بدھ مت اور دیگرمذاہب کے پیروکار بھی بڑی تعداد میں بستے ہیں تاہم بھارت کا روشن چہرہ اس وقت مسخ ہو جاتا ہے جب ان شہریوں کا استحصال عقائد اور خیالات کی وجہ سے کیا جاتا ہے۔ ان اقلیتوں میں ہندوؤں کی نچلی ذات کے افراد بھی شامل ہیں جنہیں عام آدمی کے مساوی حقوق بھی حاصل نہیں ہیں۔ بھارت میں مسلمان صدیوں سے آباد ہیں ۔ یہ انتہائی گھناؤنی بات ہے کہ وقتا فوقتا ان پر ظلم و ستم ڈھائے جاتے رہے فسادات ہوئے اور پوری پوری مسلم بستیوں کو جلادیا گیا۔ ان کا قتل عام ہوا اور اب ایک بار پھر پیغمرحضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کرکے لاکھوں مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی گئی۔ نریندر مودی کے 2014 میں برسراقتدار آنے کے بعد سے اس میں شدت آئی ہے اوراب مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اسلام اور پیغمبراسلام کی شان بارے بی جے پی رہنماؤں کے بیانات میں شدت آگئی ہے۔ حالیہ دنوں میں پڑوسی ملک بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے مرکزی رہنماؤں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے توہین آمیز کلمات کہے جس سے دنیا بھر کے مسلمانوں میں گہرے غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔ اسلام بارے انتہائی توہین آمیز گفتگو ہوئی جبکہ دہلی کے میڈیا سربراہ نوین جندال نے ایک متنازع ٹویٹ کیا۔ بی جے پی کے مرکزی رہنماؤں کے ان توہین آمیز بیانات پر بھارت سمیت پوری دنیا خاص کر عرب ممالک مصر، سعودی عرب میں شدید احتجاج ہوا ۔ قطر، بحرین اور کویت نے بھارت کے بائیکاٹ کی مہم شروع کرتے ہوئے درآمدی اشیاء استعمال نہ کرنے کی اپیل کی۔ انہوں نے سخت احتجاج ریکارڈ کراتے ہوئے کہا کہ اسلام اور حضرت محمد صلى الله عليه وسلم بارے توہین آمیز بیانات 2 ارب مسلمانوں کی توہین ہے اور اس طرح بھارت میں نفرت کو منظم طریقے سے پھیلایا جارہا ہے۔قطری حکومت نے بھارتی سفیر کو طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا اور بھارتی حکومت سے کہا کہ وہ توہین آمیز بیانات کی مذمت کرے اور عوامی معافی مانگے۔ ایران نے بھی دارالحکومت تہران میں تعینات بھارتی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کیا اور بی جے پی رہنماؤں کی جانب سے پیغمبر اسلام کے توہین آمیز کلمات سخت احتجاج کیا۔ الخلیل نے بھارتی مصنوعات کے بائیکاٹ کا حکم دیا اس سے قبل فروری میں انہوں نے بھارت کو مسلمانوں کے خلاف مظالم بارے خبردارکیا تھا۔ اس سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی اس طرح کے متنازع بیانات بھارت میں اسلاموفوبیا کے بڑھتے رجحان کی عکاسی کرتے ہیں۔ پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ وہ ہمارے پیارے نبی محمد صلى الله عليه وسلم کی شان میں گستاخی پر بی جے پی رہنما کی شدید مذمت کرتے ہیں جس سے تمام مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی ہے۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی ٰ صلى الله عليه وسلم سے ہماری محبت ہرچیز پرمقدم ہے اور ہر مسلمان حضرت محمد صلى الله عليه وسلم پر اپنی جان قربان کرنے کو تیار ہے جبکہ دوسری جانب مغربی میڈیا سنکیانگ پر دن رات جھوٹا پھیلاتا رہتا ہے کہ چینی حکومت ویغور مسلمانوں پر ظلم وستم کررہی ہے جبکہ اصل صورتحال اس کے برعکس ہے۔ سنکیانگ میں ویغور مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد آباد جسے تمام بنیادی حقوق حاصل ہیں ارمچی میں بڑی تعداد میں مساجد ہیں جہاں مسلمان آزادانہ عبادت کرتے رمضان المبارک میں روزہ رکھتے اور پورے وقار کے ساتھ آزادی سے عید مناتے ہیں۔یہ سنکیانگ بارے چین کی اعلیٰ قیادت کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ آج یہ خطہ تعمیر وترقی میں ایک مضبوط مرکز کے طور پر ابھرا ہے۔ سنکیانگ میں معاشی سرگرمیوں اور کاروبار کے فروغ سے مسلسل معاشی ترقی دیکھنے میں آئی ہے۔ سنکیانگ نے سال 2021 میں جی ڈی پی میں 7 فیصد ترقی کے منصوبے بنائے جن کی مجموعی مالیت 16 کھرب یوآن (تقریباً 253.2 ارب ڈالرز) تھی۔ خطے میں مجموعی طور پر 4لاکھ 77ہزار 400 شہری ملازمتیں پیدا ہوئیں جس نے بیروزگاری کی شرح میں نمایاں کمی کی ۔ اس کے علاوہ تعلیم، صحت، ثقافت، سماجی بہبود، ماحولیات، انفارمیشن ٹیکنالوجی یا زندگی کے کسی بھی شعبے دیکھیں سنکیانگ میں نمایاں بہتری نظر آئے گی ۔ ان کامیابیوں کی روشنی میں صدر شی جن پھنگ کے حالیہ دورے سے یہ امید ہوچلی ہے کہ سنکیانگ میں تعمیر وترقی کا ایک نیا باب شروع ہوگا اور یہاں کے باسی زیادہ خوشحالی کی طرف قدم بڑھائیں گے۔ چین کا سنکیانگ ویغور خود اختیار خطہ چین اور وسط ایشیا، مشرق وسطیٰ اور یورپ کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتا ہے۔اپنے اسٹریٹجک محل وقوع کے سبب سنکیانگ ، چین کے اہم ترین علاقوں میں سے ایک تصور کیا جاتا ہے سنکیانگ چین کے مجوزہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو ہے۔ یہ قدیم شاہراہ ریشم میں بھی اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔