نیویارک، امریکی فوج نے افغانستان اور مشرق وسطی میں دو دہائیوں پر محیط جنگ کے دوران 140 کھرب ڈالر خرچ کیئے جس سے اسلحہ ساز، ڈیلرز اور ٹھیکیدار مالا مال ہوگئے۔
ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 11 ستمبر 2001 کے واقعے کے بعد 20 سالہ جنگ میں امریکی فوجی کے اخراجات 140 کھرب ڈالر تک پہنچ گئے تھے جس میں سے ایک تہائی سے نصف ٹھیکیداروں کو ملے۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکی ٹیکس دہندگان کا پیسہ ایسے منصوبوں پر ضائع کیا گیا جو کبھی نتیجہ خیز نہیں ہوئے جیسے ایک منصوبے پر پینٹاگون نے 6 ملین ڈالر خرچ کیے۔ اس پروجیکٹ کے لیے 9 اطالوی بکریاں درآمد کیں تاہم یہ منصوبہ سراسر نقصان میں رہا۔ رپورٹ کے مطابق کھربوں ڈالر کی جنگ کا سب سے زیادہ فائدہ 5 دفاعی کمپنیوں لاک ہیڈ مارٹن کارپوریشن، بوئنگ کمپنی، جنرل ڈائنامکس کارپوریشن، ریتھیون ٹیکنالوجیز کارپوریشن اور نارتھروپ گرومن کارپوریشن نے اٹھایا۔ مجموعی طور پر ان کمپنیوں نے ہتھیاروں، سپلائیز اور دیگر خدمات کے لیے امریکا سے 2 کھرب 10 ارب ڈالرز بٹورے۔رپورٹ میں چند انفرادی کہانیاں بھی بیان کی گئی ہیں جن میں کوئی ایک غریب شخص کسی سروس کے عوض امریکا سے ڈالرز لیکر معروف کاروباری شخصیت بن گیا جیسے ایک نوجوان افغان مترجم نے امریکی افواج کو بستر کی چادریں فروخت کرتے کرتے ایک کامیاب صنعت کار بن گیا۔اسی طرح کیلیفورنیا کے ایک تاجر نے کرغزستان میں ایک بار چلاتے ہوئے ایندھن کا کاروبار شروع کیا جس سے اربوں کی آمدنی ہوئی۔ اوہائیو کے دو آرمی نیشنل گارڈز نے ایک چھوٹا سا کاروبار شروع کیا جو فوج کو افغان ترجمان فراہم کرتا ہے۔ یہ امریکی فوج کے اعلی ٹھیکیداروں میں سے ایک بن گیا اور تقریبا 4 ارب ڈالر کمائے۔رپورٹ کے مطابق غیر ملکی ٹھیکیدار اکثر افغانوں کو اپنا کام کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے لیکن انھیں رقم کا صرف ایک حصہ ادا کرتے تھے جو وہ کسی امریکی یا یورپی ملازم کو دیتے تھے۔