بیجنگ ()
"میں نے جو کچھ دیکھا ہے وہ افسوسناک غلطیوں کا سلسلہ نہیں ہے، بلکہ استثنیٰ کا ایک نمونہ ہے: شہریوں کو تلاش کرنے میں ناکامی، موقع پر تحقیق کرنے میں ناکامی، وجہ کی نشاندہی کرنے میں ناکامی اور سبق سیکھنے میں ناکامی، کسی کو سزا دینے میں ناکامی، یا نامناسب دریافت میں ناکامی "، مشرق وسطیٰ میں امریکی فوج کی کارروائیوں پررپورٹر عظمت خان کا یہ تجزیہ ہے۔
انہوں نے جو طویل تحقیقاتی رپورٹ لکھی ہے وہ حال ہی میں نیویارک ٹائمز میں مسلسل شائع ہوتی رہی ہے، جس میں امریکی فوج کی طرف سے جنگ میں بڑی تعداد میں شہریوں کو ہلاک کرنے کی اندرونی کہانی کا انکشاف کیا گیا ہے، اور اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ امریکہ نے بے دردی سے ایک ایسا نظام بنایا جس نے جان بوجھ کر فضائی حملوں میں ہلاکتوں کی صحیح تعداد کو چھپایا اور فضائی حملوں کے وسیع استعمال کو قانونی شکل دی۔
اس طویل تحقیقاتی رپورٹ کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔پہلے حصے کا عنوان ہے ’’امریکی فضائی حملوں کے ناکامی کے موڈ کو ظاہر کرنے والی خفیہ پینٹاگون دستاویزات‘‘۔دوسرے حصے کا عنوان ہے "امریکی فضائی حملوں سے ہونے والے جانی نقصانات”۔اعداد و شمار کے مطابق عراق سے لے کر افغانستان تک، شام سے لے کر یمن تک، گزشتہ 20 سالوں میں امریکی فوج کے 90000 سے زیادہ فضائی حملوں میں کم از کم 48000 شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ امریکی فوج نے اپنی بندوقوں کا نشانہ کسانوں، بچوں، خاندانوں اور دیہاتیوں پر رکھا”.ان جرائم نے امریکہ کے اس جھوٹ کو پوری طرح بے نقاب کر دیا کہ فضائی حملوں سے بڑی تعداد میں شہری ہلاکتیں نہیں ہوئیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری امریکہ کی طرف سے کیے گئے جنگی جرائم کی تحقیقات کرے۔ انصاف ایک حقیقت ہے یہ جلد یا بدیر ہو کر رہے گا۔