اہم خبریںپاکستان

ملزمان کیخلاف سخت کارروائی ہو گی، وزیراعظم کی سری لنکن صدر کو یقین دہانی

اسلام آباد /سیالکوٹ ، وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ سری لنکن صدر کو یقین دلایا کہ سانحہ سیالکوٹ میں ملوث ملزمان کیخلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی کی جائے گی۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر وزیراعظم عمران خان نے لکھا کہ متحدہ عرب امارات میں موجود سری لنکن صدر گوٹابایا راجہ پاکسے سے ٹیلیفونک رابطہ ہوا ہے،سیالکوٹ میں پریانتھا دیاودانا کے قتل پر پاکستانی قوم کو بھی غصہ ہے اور قوم سری لنکا سے شرمندہ ہے۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ٹیلیفونک رابطے کے دوران میں نے سری لنکن صدر کو بتایا کہ اس واقعے کے بعد کارروائی کرتے ہوئے 100 سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا ہے اور انہیں یقین دلایا کہ ملوث ملزمان کیخلاف سخت کارروائی ہو گی۔دوسری طرف سری لنکن صدر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر لکھا کہ سیالکوٹ میں پیش آنے واقعے پر گہری تشویش ہے۔ ہماری حکومت کو وزیراعظم عمران خان پر مکمل بھروسہ ہے کہ پاکستان انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے گا اور ملک میں باقی سری لنکن کارکنوں کی حفاظت کو یقینی بنائے گا۔اس ٹویٹ پر رد عمل دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر فیصل جاوید خان نے لکھا کہ جناب صدر میں پاکستانی شہری ہوں اور سری لنکن منیجر کے قتل پر بہت افسوس ہے، یہ بدقسمتی والا دن ہے، پاکستانی سری لنکن شہریوں سے معذرت خواہ ہیں، پاکستان نفرت کے آگے کبھی نہیں جھکے گا۔اس سے قبل سری لنکا کے وزیر اعظم مہندا راجا پکسے نے ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے یقین ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اپنا عہد پورا کرتے ہوئے واقعے میں ملوث تمام ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے۔انہوں نے ٹویٹر پر لکھا کہ پاکستان میں مشتعل ہجوم کی جانب سے سری لنکن منیجر پریا نتھا دیاودھنا پر بہیمانہ اور جان لیوا حملے پر صدمہ پہنچا۔ متاثرہ شخص کی اہلیہ اور خاندان کے غم میں شریک ہوں۔علاوہ ازیں سیالکوٹ میں سری لنکن منیجر کے قتل کے واقعے کی مزید تفصیلات سامنے آگئیں،پولیس کی تحقیقات کے مطابق وقوعہ کے وقت فیکٹری میں رنگ روغن کا کام جاری تھا، سری لنکن شہری نے صبح 10بج کر28منٹ پردیوارپر لگے کچھ پوسٹرز اتارے تو اس دوران فیکٹری منیجر اور ملازمین میں معمولی تنازع ہوا،تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ فیکٹری منیجر زبان سے نا آشنا تھا جس وجہ سے اسے کچھ مشکلات درپیش تھیں تاہم فیکٹری مالکان نے ملازمین کیساتھ تنازع حل کرایا اور فیکٹری منیجر نے غلط فہمی کا اظہار کرکے معذرت بھی کی لیکن کچھ ملازمین نے بعد میں دیگر افراد کو اشتعال دلایا جس پر بعض ملازمین نے منیجر کو مارنا شروع کردیا،تحقیقات کے مطابق فوٹیج سے پتا چلا کہ صبح 10بج کر 40منٹ پر منیجر کو عمارت سے نیچے گرایا گیا اور مشتعل افراد اسے گھسیٹ رہے تھے، منیجر کو مشتعل ملازمین نے اندر ہی مار دیا تھا، جس وقت اسے نیچے گرایا تھا وہ بے سدھ ہوچکا تھا اور غالب امکان ہے کہ نیچے گرانے سے منیجر کی موت واقع ہوچکی تھی، اس کے بعد منیجر کی لاش کو گھسیٹ کر فیکٹری ایریا سے باہر لایا گیا،تحقیقات کے مطابق گارمنٹ فیکٹری میں 13سکیورٹی گارڈز تعینات تھے لیکن واقعے کے وقت تمام گارڈز بھی موقع سے فرار ہوگئے جس کے بعد ملازمین فیکٹری منیجر کی لاش گھسیٹ کر باہر لے آئے، 11بج کر 28منٹ پر پولیس کو ون فائیو پر اطلاع دی گئی تو مقامی ایس ایچ او جائے وقوعہ پر پہنچے، صورتحال خراب دیکھ کر انہوں نے ڈی پی او کو کال کی جس پر ڈی پی او نے 27 انسپکٹرز کو موقع پر پہنچنے کی ہدایت کی اور بھاری نفری کو طلب کرلیا،تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ سڑک بند ہونے سے پولیس کی نفری کو جائے وقوعہ پر پہنچنے میں تاخیر ہوئی اور ڈی پی او بھی خود پیدل بھاگ کر جائے وقوعہ پر پہنچے مگر ان کے پہنچنے تک ملازمین فیکٹری منیجر کی لاش کو جلا چکے تھے۔دوسری طرف پنجاب حکومت کے ترجمان حسان خاور نے آئی جی پنجاب کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ سیالکوٹ واقعے میں ملوث 118گرفتار ملزمان میں 13مرکزی ملزم شامل ہیں، ان تمام مرکزی ملزمان کی شناخت ہوچکی ہے، واقعے سے متعلق 160کیمروں کی فوٹیج لی گئی ہے اور گرفتاریوں کے لیے 10ٹیمیں بنائی گئی ہیں جب کہ واقعے کے مقدمے میں دہشتگردی کی دفعات شامل ہیں، آر پی او اور ڈی پی او 24 گھنٹے چھاپوں کی نگرانی کررہے ہیں،حسان خاورنے کہا کہ ابتدائی رپورٹ یہی ہے کہ موقع سے ایک چیز ہٹائی گئی تھی اور واقعے کی پولیس کو جب پہلی اطلاع ملی تو ہلاکت ہوچکی تھی، پولیس اور انتظامیہ واقعے کی مکمل تحقیقات کر رہی ہیں، ایسے واقعات ہمارے لیے اور ہمارے ملک کیلئے شرمندگی ہے،ترجمان پنجاب حکومت نے بتایا کہ ہلاک ہونے والے سری لنکن شہری کی فیملی پاکستان میں نہیں ہے،اس موقع پر آئی پنجاب نے کہا کہ واقعے کی اطلاع ملنے پر مقامی پولیس نے فوری طورپر حکام کوآگاہ کیا، ڈی پی او اور ایس اپی پیدل چل کر وہاں پہنچے، واقعے کے بعد راستے بلاک تھے اس میں پولیس کی کوتاہی ثابت نہیں ہوئی، اگر واقعے میں پولیس کی کوئی کوتاہی ہوئی تو اس کا جائزہ لیں گے ،انہوں نے کہا کہ واقعے میں سارے ملزم تو قاتل نہیں ہر ملزم کا کردار طیکیا جائیگا اور تفتیش میں طے کریں گے کس ملزم کا کیا رول تھا، ابھی تک جتنی تحقیقات ہوئیں سب بتائی جاچکی، اب تک جو کچھ کیا ہے اس کی تفصیلات شیئر کررہے ہیں، 160فوٹیجز کی روشنی میں گرفتاریاں کی جائیں گی۔ادھر سیالکوٹ میں تشدد سے ہلاک ہونے والے سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کی لاش کا پوسٹ مارٹم مکمل کرلیا گیا،پریانتھا کمارا کی لاش کا زیادہ تر حصہ جلا ہوا پایا گیا ہے جب کہ پائوں اور ٹانگوں کا نچلا حصہ آگ سے محفوظ رہا،ذرائع کا کہنا تھا کہ آگ لگنے سے بچ جانے والے حصے کی ہڈیاں ٹوٹی پائی گئی ہیں، پوسٹ مارٹم رپورٹ مکمل ہونے پر وزرات داخلہ پنجاب نے سری لنکن سفارتخانے سے رابطہ کرلیا ہے، پریانتھا کمارا کی لاش خصوصی پرواز سے اسلام آباد بھجوائی جائے گی جہاں سے سری لنکن سفارت خانے کے اہلکار لاش کو سری لنکا لے کر جائیں گے۔سیالکوٹ میں سری لنکن فیکٹری منیجر کے قتل اور لاش کو جلائے جانے کی تحقیقاتی رپورٹ بھی وزیراعظم عمران خان کو پیش کر دی گئی، رپورٹ کے مطابق مرکزی ملزمان سمیت 112ملزمان گرفتار کیے جا چکے ہیں، اشتعال دلانے والوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے، فیکٹری منیجرز کی معاونت سے واقعے میں ملوث افراد کی شناخت کی گئی، گرفتار ملزمان کو مزید تحقیقات کے لیے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا،وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ذمہ داران کے خلاف سخت ترین کارروائی کی گئی، واقعے کے محرکات میں توہین مذہب کے ساتھ انتظامی پہلوں کا جائزہ بھی لیا جا رہا ہے،راجہ بشارت کا کہنا تھا کہ سیالکوٹ اور گرد و نواح میں گرجا گھروں اور غیر ملکی فیکٹری ورکرز کی سکیورٹی بھی سخت کر دی گئی ہے۔قبل ازیں سیالکوٹ میں سری لنکن شہری کے قتل اور بعد ازاں لاش جلائے جانے کے المناک واقعہ کا مقدمہ درج کر لیاگیا، مقدمے میں دہشت گردی اور قتل سمیت دیگر سنگین دفعات شامل کی گئیں ہیں۔پولیس کے مطابق واقعے کا مقدمہ900فیکٹری ملا زمین کے خلاف میں درج کیا گیا ہے۔ رات بھر ملزمان کی گرفتاری کے لیے آپریشن کیا گیا۔ پولیس نے 50 سے زائد مقامات پر چھاپے مارے۔ سپیشل برانچ اور سی ٹی ڈی نے چھاپوں میں حصہ لیا۔محکمہ پولیس کا کہنا پے کہ زیر حراست ملزمان سے تفتیش جاری ہے۔ تفتیش کے ذریعے دیگرملزمان کی نشاندہی میں مدد مل رہی ہیں،سی سی ٹی وی فوٹیج اور ویڈیوز کی مدد سے ملزمان کی شناخت اور تلاش کا عمل جاری ہے۔علاوہ ازیں سیالکوٹ میں فیکٹری منیجرپریانتھا کمارا کے قتل کی پولیس تحقیقات میں مزید انکشافات سامنے آگئے۔پولیس کے مطابق ورکرزاور دوسرا عملہ غیرملکی منیجرکو سخت ناپسندکرتیتھے اور پریانتھا اور فیکٹری کے دوسرے عملے میں اکثرتکرار ہوتی رہتی تھی۔پولیس نے بتایا کہ پریانتھا کے خلاف ورکرز اور سپروائزر نے مالکان سے کئی بارشکایت بھی کی تھی جبکہ واقعے کے روز پریانتھا کمارا نے پروڈکشن یونٹ کا اچانک دورہ کیا تھا جہاں ناقص صفائی پرپریانتھا کمارا نے ورکرزاورسپروائزرکی سرزنش کی تھی۔پولیس کے مطابق فیکٹری منیجر پریانتھا کمارا نے ورکرزکودیواروں پررنگ کیلئے تمام اشیا ہٹانے کا کہا تھا اور مقتول منیجر خود بھی دیواروں سے چیزیں ہٹاتارہا، اسی دوران مذہبی پوسٹر بھی اتارا جس پر ورکرز نے شورمچایا تو مالکان کے کہنے پر پریانتھا کمارا نے معذرت کرلی تھی۔پولیس تحقیقات کے مطابق جس سپروائزر کی پریانتھا نے سرزنش کی اسی نے بعد میں ورکرز کو اشتعال دلایا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ پریانتھا کمارا فیکٹری میں بطورجنرل مینجرپروڈکشن ایمانداری سے کام کرتا تھا اور فیکٹری قوانین پر سختی سے عمل درآمدر کراتا تھا جس پر فیکٹری مالکان بھی اس کیکام سے خوش تھے۔پولیس کی تحقیقات کے مطابق وقوعہ کے وقت فیکٹری میں رنگ روغن کا کام جاری تھا، سری لنکن شہری نے صبح 10 بج کر28 منٹ پردیوارپر لگے کچھ پوسٹرز اتارے تو اس دوران فیکٹری منیجر اور ملازمین میں معمولی تنازع ہوا۔ تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ فیکٹری منیجر زبان سے نا آشنا تھا جس وجہ سے اسے کچھ مشکلات درپیش تھیں تاہم فیکٹری مالکان نے ملازمین کیساتھ تنازع حل کرایا اور فیکٹری منیجر نے غلط فہمی کا اظہار کرکے معذرت بھی کی لیکن کچھ ملازمین نے بعد میں دیگر افراد کو اشتعال دلایا جس پر بعض ملازمین نے منیجر کو مارنا شروع کردیا۔تحقیقات کے مطابق فوٹیج سے پتا چلا کہ صبح 10 بج کر 40 منٹ پر منیجر کو عمارت سے نیچے گرایا گیا اور مشتعل افراد اسے گھسیٹ رہے تھے، منیجر کو مشتعل ملازمین نے اندر ہی مار دیا تھا، جس وقت اسے نیچے گرایا تھا وہ بے سدھ ہوچکا تھا اور غالب امکان ہے کہ نیچے گرانے سے منیجر کی موت واقع ہوچکی تھی، اس کے بعد منیجر کی لاش کو گھسیٹ کر فیکٹری ایریا سے باہر لایا گیا۔تحقیقات کے مطابق گارمنٹ فیکٹری میں 13 سکیورٹی گارڈز تعینات تھے لیکن واقعے کے وقت تمام گارڈز بھی موقع سے فرار ہوگئے جس کے بعد ملازمین فیکٹری منیجر کی لاش گھسیٹ کر باہر لے آئے، 11 بج کر 28 منٹ پر پولیس کو ون فائیو پر اطلاع دی گئی تو مقامی ایس ایچ او جائے وقوعہ پر پہنچے، صورتحال خراب دیکھ کر انہوں نے ڈی پی او کو کال کی جس پر ڈی پی او نے 27 انسپکٹرز کو موقع پر پہنچنے کی ہدایت کی اور بھاری نفری کو طلب کرلیا۔تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ سڑک بند ہونے سے پولیس کی نفری کو جائے وقوعہ پر پہنچنے میں تاخیر ہوئی اور ڈی پی او بھی خود پیدل بھاگ کر جائے وقوعہ پر پہنچے مگر ان کے پہنچنے تک ملازمین فیکٹری منیجر کی لاش کو جلا چکے تھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker