اسلام آباد ہائیکورٹ میں ڈیفنس ہاوسنگ اتھارٹی کے خلاف دو بیواوں کی زمین پر قبضے کے کیس پر سماعت ہوئی ،اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کی۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے لینڈ ایکوزیشن کا معاملہ سی ڈی اے بورڈ کے آئندہ اجلاس میں زیرغور لانے کا حکم دے دیا۔عدالت نے کہا کہ سی ڈی اے بورڈ قانون کے مطابق فیصلہ کرے، عدالت نے آئندہ سماعت تک رپورٹ جمع کرانے کا حکم دے دیا۔ڈی ایچ اے کو زبردستی زمین حاصل کرنے سے روکنے کے حکم میں 11 جنوری تک توسیع دے دی گئی ۔چیف جسٹس نے سی ڈی اے کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ کیا ماسٹر پلان ختم ہو گیا، آپ کر کیا رہے ہیں، کیا اب آپ خود قانون بن گئے ہیں جو قانون پر عمل نہیں کر رہے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ لینڈ ایکوزیشن کلکٹر کون ہے جو خود سے سب کچھ کر رہا ہے،سی ڈی اے کے علاوہ صرف فیڈرل گورنمنٹ ہاوسنگ اتھارٹی کے پاس زمین ایکوائر کرنے کا اختیار ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ لینڈ کلکٹر کبھی ڈی ایچ اے اور کبھی آئی بی کے سکول کیلئے لینڈ ایکوائر کر رہا ہے۔سی ڈی اے کے وکیل نے موقف اپنایا کہ سی ڈی اے نے لینڈ ایکوزیشن کی کوئی اجازت نہیں دی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ریگولیٹر ہیں اور آپکو لینڈ ایکوزیشن سے متعلق معلوم ہی نہیں، اگر سی ڈی اے نے اجازت نہیں دی تو لینڈ کلکٹر کیسے نوٹس جاری کر رہا ہے، کل کو ہر سوسائٹی لینڈ ایکوزیشن کلکٹر کو لینڈ ایکوائر کرنے کیلئے کہے گی، آپ کہہ رہے ہیں آپ نے اجازت نہیں دی، یہ بیان دے کر کیوں خود کو شرمندہ کر رہے ہیں۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہاں پر ایک قانون نافذ ہے، سی ڈی اے اسلام آباد کی ریگولیٹر ہے، سی ڈی اے سکیم بناتا ہے اور اسکے تحت لینڈ ایکوائر کی جا سکتی ہے، فیڈرل گورنمنٹ ہاوسنگ اتھارٹی بھی ماسٹر پلان سے باہر نہیں جا سکتی، یا تو عدالت کو بتائیں کہ ماسٹر پلان ختم ہو گیا، پھر سی ڈی اے بھی ختم ہو جاتا ہے، یہ معاملہ سی ڈی اے بورڈ کے سامنے رکھیں اور قانون کے مطابق فیصلہ کریں، ایک بات ذہن نشین کر لیں، کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں، قانون سپریم ہے اور اس پر عملدرآمد ہونا ہے۔عدالت نے کیس کی سماعت 11 جنوری تک ملتوی کر دی۔