اسلام آباد،وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستانی سیاست میں مافیا ز کا راج ہے ، بیس سالہ جدوجہد میں بہت سیدھچکوں کا سامنا کرنا پڑا، طاقت ور لوگ میری کردارکشی کیلئے اسکینڈلز اور جعلی خبریں سامنے لائے، اسلامی فلاحی ریاست کا عزم لے کر سیاست میں آیا، پاکستان کو ریاست مدینہ بنانا میری زندگی کا مقصد ہے، مذہب کے نام پر کسی کے ساتھ زبردستی نہیں کی جا سکتی،ہمارے ملک میں طاقتور اور کمزور کیلئے مختلف قوانین مروج ہیں، سیاست سمیت ہر چیز پر اشرافیہ کا قبضہ ہے، قانون کی بالادستی کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا، ہمیں قانون کو سپریم بنانا ہو گا۔
اتوار کو وزیراعظم عمران خان نے امریکی اسلامی اسکالر شیخ حمزہ یوسف کو انٹرویو کے دوران کہا کہ کوئی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا اگر وہاں پر قانون کی حکمرانی نہ ہو، مہذب معاشرے کا بنیادی اصول قانون کی حکمرانی ہے جہاں آپ طاقتور کو قانون کے دائرہ میں لاتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ ترقی پذیر ممالک میں سب سے بڑا مسئلہ قانون کی حکمرانی کا نہ ہونا ہے، جہاں امیروں کے لیے ایک اور کمزو طبقات کے لیے دوسرا قانون ہے اور جیلیں بھی غریبوں سے بھری پڑی ہیں۔انہوں نے کہا کہ قانون کی حکمرانی نہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف عوام کی اکثریت بنیادی سہولیات سے محروم ہے بلکہ ملک بھی اپنی صلاحیتوں سے استفادہ نہ کر سکا، ملکی وسائل پر اشرافیہ کے قبضہ کے مسئلہ کی وجہ سے پاکستانی عوام کی اکثریت صحت، تعلیم اور انصاف جیسی بنیادی سہولیوں سے محروم ہے۔ایک سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں بے پناہ صلاحیتیں موجود ہیں اور ہمارے عوام بھی باصلاحیت ہیں۔ میرٹ کا تعلق بھی قانون کی حکمرانی سے ہے۔ اگر آپ کے پاس معاشرے میں میرٹ کریسی نہیں ہے تو اشرافیہ قابض ہو جاتی ہے اور جس کسی نے کبھی کوئی جدوجہد ہی نہیں کی ہوتی وہ بھی اہم عہدوں پر فائز ہو جاتا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ لوگ زوال پذیر نہیں ہوتے بلکہ اشرافیہ ہی زوال پذیر ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو نبی کریم کے ریاست مدینہ کے تصور کے مطابق ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا خواہش مند ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کی بنیاد دو اصولوں پر رکھنا چاہتے ہیں، جن میں پہلا اصول فلاحی اور انسانی ریاست ہے جو معاشرہ کے نچلے طبقہ کا خیال رکھے اور دوسرا اصول قانون کی حکمرانی ہے۔وزیر اعظم عمران خان نے موسمیاتی بحران کے حوالہ سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ماحول کا تحفظ ایک مقدس فرض ہے لیکن اگر آپ اس مقدس عمل سے مکمل لا تعلق ہو جاتے ہیں اور صرف مادیت پرست ہو جاتے ہیں تو ایسے ہی ہوتا ہے جیسا اس وقت دنیا میں ہو رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ مقدس کا بنیادی مطلب دوسروں کا احساس اور ہمدردی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کی سب سے بڑی ماحولیاتی تباہی جس کو موسمیاتی تبدیلی کا نام دیا جاتا ہے اس کی وجہ سے انسان قدرت سے بہت دور ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے نبی کریم کا فرمان ہے کہ آخرت کے لئے ایسے جیو جیسے آپ نے کل ہی مرجانا ہو، لیکن آپ کے اعمال ایسے ہونے چاہئیں کہ اگر آپ کل مرجائیں تو اللہ تعالی کے روبرو حساب دے سکیں لیکن دنیا میں ایسے جیو جیسے ہزار برس جینا ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ آپ موجودہ وقت میں جو کچھ بھی کر رہے ہیں آپ کو اس کے اثرات کے بارے میں سوچنا چاہئے جو انسانیت پر مزید ہزار سال تک مرتب ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ نبی کریم کا عظیم فرمان ہے کیونکہ انہوں نے ماحولیات اور زمین کے بارے میں فرمایا ہے کہ اس پر کس طرح زندگی بسر کرنی چاہئے، نبی کریم نے ہر چیز کا مکمل احاطہ کردیا ہے ۔وزیر اعظم نے کہا کہ پوری ماحولیاتی تحریک ایک مقدس فریضہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر انسان اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنا چاہتا ہے تو انسان کو دوسروں کا احساس کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں سیاسی نظام کے ذریعے جو قیادت سامنے آئی وہ عقیدہ کے اصولوں سے بالکل الگ ہوگئی، وہ اقتدار کے لئے آئی اور اس نے اقتدار میں رہنے کے لیے سمجھوتہ کیا اور بیشتر سیاستدانوں نے اقتدار ذاتی فائدہ کے لیے حاصل کیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ترقی پذیر دنیا میں زیادہ تر سیاستدان اپنے مفاد اور پیسہ کمانے کے لیے ہی اقتدار میں آتے ہیں،بدقسمتی سے بہت کم نیلسن منڈیلا کی طرح تھے جو کسی اعلی مقصد کے لیے اقتدار میں آئے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح وہ شخصیت تھے جو ایک عظیم مقصد کے لیے آئے تھے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں سیاست دانوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم عوام کی خدمت کے لیے آئے ہیں لیکن حقیقت میں وہ اپنی ذات کی ہی خدمت کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں اپنے عقیدے کی وجہ سے سیاست میں آیا ہوں۔ میرے پاس سب کچھ تھا۔سپورٹس سٹار کی حیثیت سے پہلے ہی ملک میں میراایک بڑا نام تھا اور میرے پاس دولت و شہرت تھی۔ اس لئے22 سال تک جدوجہد کرنے کا میرا مقصد محض وزیر اعظم بننا نہیں تھا۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ مجھے یقین تھا کہ معاشرے کے لئے میری کوئی ذمہ داری بنتی ہے کیوں کہ مجھے دوسروں سے زیادہ عطا کیا گیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ تمام مذاہب کے مطابق انسان کی آزمائش یہ ہے کہ اسے جو دیا گیا ہے اور اسی کے مطابق اس کا حساب لیا جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ ہمارا خدا ہمیں تمام نعمتیں دے کر آزمائے گا، میں سیاست میں اس لیے آیا کیونکہ مجھے اس پر یقین تھا میں نے محسوس کیا کہ میں بہت خوش قسمت ہوں کہ مجھے معاشرے کے لیے ذمہ داری ملی ہے۔انہوں نے کہا کہ میں ذاتی مفادات یا اقتدار کے فوائد حاصل کرنے کے لیے سیاست میں نہیں ہوں ،وزیر اعظم نے کہا کہ انسان کے بس میں جدوجہد کرنا ہوتا ہے کامیابی اللہ کی عطا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب نبی کریم نے مدینہ کی ریاست قائم کی تو آپ نے ان لوگوں کی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جو سب کے سب رہنما بن گئے۔انہوں نے کہا کہ لوگ یکساں سازگار ماحول کے لئے پاکستان سے باہر جاتے ہیں اور وہاں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں صرف ایک فیصد عوام کو معیاری تعلیم تک رسائی حاصل ہے جبکہ دوسروں کے پاس مواقع ہی نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ پاکستان میں جدوجہد سے پاکستان کے لوگوں کی صلاحیتیں اجاگر ہوں گی اور لوگوں کو غربت سے نکالا جا سکے گا۔ملک میں عوامی فلاح وبہبود کے حوالہ سے ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ حکومت نے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا فلاحی پروگرام شروع کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا مقصد لوگوں کو غربت سے نکالنا، دولت پیدا کرنا اور اسے پھیلانا اور اشرافیہ اور مافیاز کی اجارہ داری کا خاتمہ ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ سچ ہے کہ عقیدہ انسان کو باوقار بناتا ہے اور اسی سے انسان کو آزادی ملی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ امیر وہ ہوتا ہے جس کا ضمیر خریدا نہ جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ خود اعتمادی انسان کی سب سے بڑی خوبی ہے۔