
کوئٹہ،بلوچستان کے وزیراعلی جام کمال خان نے کئی روز تک جاری رہنے والے تنازع کے بعد استعفیٰ دیدیا،ترجمان گورنر بلوچستان نے استعفے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ گورنر بلوچستان نے جام کمال کا استعفیٰ منظور کر لیا،وزیراعلی بلوچستان کے استعفے کے بعد آئینی طور پر صوبائی کابینہ بھی تحلیل ہوگئی ہے، نئے وزیراعلی بلوچستان حلف لینے کے بعد اپنی کابینہ بنائیں گے۔
استعفے کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں جام کمال نے کہا کہ بہت سی سوچی سمجھی سیاسی رکاوٹوں کے باوجود میں نے بلوچستان کی مجموعی حکمرانی اور ترقی کے لیے اپنا وقت اور توانائی کو ایک سمت رکھا۔انہوں نے کہا کہ انشااللہ احترام کے ساتھ چھوڑنا چاہوں گا اور خراب حکمرانی کی تشکیل کے ساتھ ساتھ ان کے مالیاتی ایجنڈے کا حصہ نہیں بننا چا ہوں گا۔اس سے قبل جام کمال نے وزیراعظم عمران خان سے صوبے کے داخلی معاملات میں وفاقی کابینہ کے اراکین کی مداخلت روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔ٹوئٹر پر اپنے بیان میں انہوں نے کہا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان سے درخواست ہے کہ وہ وفاقی کابینہ کے اراکین کو بلوچستان کے داخلی مسائل میں مداخلت سے روکیں۔انہوں نے مداخلت کا باعث بننے والے اراکینِ کابینہ کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ انہیں چاہیے کہ وہ بلوچستان میں پاکستان تحریک انصاف کو اپنا ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کا موقع دیں۔جام کمال نے ابن العربی سے منسوب ایک پوسٹ شیئر کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ سیاسی تحریک بلوچستان اور پاکستان کی سیاست میں ایک نئے دور کا آغاز ہوگی۔انہوں نے کہا تھا کہ حالیہ دو مہینوں میں بہت سی چیزیں کھل کر سامنے آئی ہیں، سیاسی نام نہاد اصول، لالچ، اقتدار کی ہوس، سازش کرنے والے اور بہت سے ہیرو اور ساکھ کے ساتھ تیز لوگوں کا مقابلہ کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ صوبائی ترقی میں نقصان کی ساری ذمہ داری پی ڈی ایم، پی ٹی آئی اور بی اے پی کے بعض سمجھدار وفاقی کابینہ، چند مافیا اور بی اے پی (ناراض گروپ)پر عائد ہوگی۔جام کمال نے وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ انہیں تجویز دوں گا کہ وہ اپنے اطراف میں موجود لوگوں پر نظر ڈالیں۔ خیال رہے کہ 20 اکتوبر کو بلوچستان اسمبلی میں وزیراعلی جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی گئی تھی۔تحریک عدم اعتماد بی اے پی کے ناراض رکن صوبائی اسمبلی سردار عبدالرحمن کھیتران نے پیش کی اور اسپیکر نے رولنگ دی تھی کہ تحریک عدم اعتماد کو مطلوبہ ارکان کی حمایت حاصل ہوگئی ہے اور 33 ارکان نے قرارداد کی حمایت کر دی ہے۔دوسری طرف اپنے بیان میں جام کمال نے کہا تھا کہ پی ڈی ایم ناراض ارکان کے ساتھ حکومت بناتی ہے تو ہم اپوزیشن میں بھی بیٹھنے کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اقتدار کے بھوکے اپنا یہ شوق بھی پورا کر لیں لیکن اس کے بعد صوبے کو جو نقصان ہو گا اس کی ذمہ داری بی اے پی کے ناراض ارکان، پی ڈی ایم، پی ٹی آئی اور وفاق کے چند سمجھدار لوگوں پر آئے گی۔ انہوں نے ٹوئٹر پیغام میں اپنے اتحادیوں اور ساتھ دینے والوں کا شکریہ بھی ادا کیا۔دوسری طرف بلوچستان کے 4 لاپتا اراکین اسمبلی نے کوئٹہ میں ناراض گروپ کے پاس پہنچ کر اپوزیشن کا اسکور پورا کر دیا۔تحریک عدم اعتماد کے حامی ارکان نے اسمبلی کے 65 میں سے 39 ارکان کے ساتھ پریس کانفرنس کر کے اپنی اکثریت ظاہر کر دی۔پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما نواب ثنا اللہ زہری بھی جام کمال کے مخالفین سے جا ملے جس پر ناراض گروپ کے رہنما ظہور بلیدی نے سابق صدر آصف علی زرداری کا شکریہ بھی ادا کیا۔