اسلام آباد، وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ انہوں نے افغانستان میں مختلف برادریوں کی نمائندگی کرنے والی جامع حکومت کے قیام کے لیے طالبان سے مذاکرات کا آغاز کردیا ہے۔
وزیر اعظم کی جانب سے ٹوئٹ کے ذریعے یہ بیان تاجکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کے 20ویں سربراہی اجلاس کے بعد سامنے آیا جس میں عمران خان سمیت علاقائی قیادت نے امریکا کے انخلا کے بعد افغانستان کی صورتحال پر غور کیا۔اپنی ٹوئٹ میں وزیر اعظم نے کہا کہ ‘دوشنبے میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے رہنماں سے ملاقاتوں خصوصا تاجکستان کے صدر امام علی رحمن سے طویل بات چیت کے بعد میں نے ایک شمولیتی حکومت کی خاطر تاجک، ہزارہ اور ازبک برادری کی افغان حکومت میں شمولیت کے لیے طالبان سے مذاکرات کی ابتدا کر دی ہے۔انہوں نے کہا کہ ’40 برس کی لڑائی کے بعد ان دھڑوں کی اقتدار میں شمولیت ایک پرامن اور مستحکم افغانستان کی ضامن ہوگی جو محض افغانستان ہی نہیں بلکہ خطے کے بھی مفاد میں ہے۔خیال رہے کہ اس سے قبل افغانستان میں تاجک برادری اور پشتونوں کے درمیان کشیدگی میں کمی کی کوششوں کے سلسلے میں وزیراعظم عمران خان نے تاجک صدر کو اپنا کردار ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔دوشنبے میں تاجکستان کے صدر امام علی رحمان سے گزشتہ روز ہونے والی ملاقات میں وزیراعظم عمران خان نے یقین دلایا کہ وہ طالبان پر زور دیں گے کہ طالبان سے محاذ آرائی نہ کرنے والے تاجک رہنماں کو افغان حکومت میں نمائندگی دی جائے۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ وہ اس بات پر بھی زور دیں گے کہ صوبہ پنجشیر میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی جاری رکھی جائے۔واضح رہے کہ پاکستان، طالبان کے قبضے اور عبوری حکومت کے اعلان کے بعد سے افغانستان میں شمولیتی حکومت کی ضرورت پر زور دے رہا ہے۔وزیر اعظم نے اس بات پر ایس سی او اجلاس سے خطاب میں بھی زور دیا۔وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ طالبان کو افغانستان میں کیے گئے وعدوں کو پورا کرنا چاہیے اور شمولیتی سیاسی ڈھانچہ بنانا چاہیے جس میں تمام نسلی گروپوں کی نمائندگی ہو کیونکہ یہ افغانستان کے استحکام کے لیے ضروری ہے’۔افغانستان کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران نے کہا کہ طالبان کے قبضے اور غیر ملکی فوجوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں ایک ‘نئی حقیقت’ سامنے آئی۔انہوں نے کہا کہ یہ بین الاقوامی برادری کے اجتماعی مفاد میں ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ افغانستان میں دوبارہ کوئی تنازع نہ ہو اور سیکیورٹی کی صورتحال مستحکم ہو۔