تحریر: حکم خان
@khanhukam1
کہتے ہیں جب اچھا انسان کسی مصیبت میں ہو تو اللہ اس کے دل کی سکون کے لئے کوئی نہ کوئی راستے بنا ہی لیتا ہے۔ جیسے سید علی گیلانی مرحوم کے لئے اللہ نے بنائی جیل میں مرد درویش جناب حکیم مولانا غلام نبی (فاضل دیوبند) بھی موجود تھے جو بعد میں امیر جماعت اسلامی (مقبوضہ) جموں و کشمیر بھی رہے ان کی قربت نے سید علی گیلانی کی علم کی پیاس بجھائی اور انہیں عمل کے اسلحے سے لیس کیا یہ عرصہ گیلانی مرحوم کے لئے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوا ۔ مولانا حکیم غلام نبی کے علم وتقوی نے اپ کے زندگی میں گہرے نقوش ثبت کئے اور یہی وجہ تھی کہ گیلانی صاحب ایسے ابھرے کہ ہر کشمیری کے دل میں آزادی کی چنگاری جلادی۔ جیل سے رہائی کے بعد آپ جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے سیکرٹری جنرل بنا دیے گئے۔ جیل کی سختیوں اور قید و بند کی صعوبتوں نے آپ میں بھارتی تسلط کے خلاف بغاوت کے جذبات کو اور بھی بھڑکا دیا تھا۔ اب وہ پہلے سے زیاوہ بلند آہنگ میں آزادی کی صدا بلند کرنے لگے۔ وہ پوری یکسوئی سے ہندوستانی استعمار سے رائے شماری کرانے کا وعدہ پورا کرنے کا مطالبہ کرنے لگے۔ عوام کو آپ نے حق خودارادیت کے حصول کے لیے تیار،بیدار اور ہوشیار کرنا شروع کیا۔
سید علی گیلانی کو پھر گرفتار کر لیا گیا۔ کچھ عرصے بعد انہیں رہا کردیا گیا جس کے بعد انہوں نے سری نگرمیں ایک پرہجوم پریس کانفرنس میں ایک بار پھر اپنے عزم آزادی کا بیانگ دہل اظہار کرکے بھارتی حکمرانوں کی نیندیں حرام کر دیں۔ پریس کانفرنس میں آپ نے فرمایا: “بھارت نے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو اقوام متحدہ میں تسلیم کر لیا ہے اور ہماری بھی کوشش یہی ہے کہ اس مسئلے کو سیاسی انداز میں ہی حاصل کیا جائے۔ خود بھارت کا مفاد بھی اسی میں ہے لیکن اگر بھارتی حکمرانوں نے مزید ٹال مٹول سے کام لیا تو کشمیری کسی دوسرے راستے کا انتخاب کرنے میں حق بجانب ہوں گےشیخ عبداللہ نے 1973ء میں اندرا گاندھی کے ساتھ گٹھ جوڑکرکے بھارئی قبضے پر مہر تصدیق ثبت کر دی ۔ یوں وزارت اعلیٰ کی کرسی کے عوض کشمیریوں کے حق آزادی کا سودا کرکے “شیر کشمیر”غدار چہرے کے ساتھ سامنے آگیا۔
اس موقع پر بھی سید علی گیلانی نے ہی قوم کے جذبات کی ترجمانی کا حق ادا کیا۔ انھوں نے بھارتی حکمرانوں پر واضح کیا: ـ”اگر تم نے شیخ عبد اللہ اور مرزا افضل بیگ کو خرید لیا ہے تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ قوم اپنے مطالبہ حق خود ارادیت سے دست بردار ہو گئی ہے۔” شیخ عبد اللہ اور اس کے حواریوں نے گیلانی صاحب کو بھارت کے ساتھ الحا ق کو ـ”حقیقت ـ”سمجھ کر تسلیم کرنے کا “مخلصانہ “مشورہ دیاکہا گیا: “گیلانی صاحب!حق خود ارادیت کا وقت گزر چکاہے۔قوم بھارت کے ساتھ رہنے پر”راضی ـ”ہے—اب تو دریائے جہلم میں بہت پانی بہہ چکاہے۔ آپ بھی اب “آزادی “کی بے وقت کی راگنی ترک کردیں ” سید علی گیلانی کا جرأت مندانہ اور پر عزم جواب یہ تھا: “دریائے جہلم سے پانی ہی تو بہا ہے ‘قوم کا حق آزادی تو نہیں بہہ گیا ۔انسانی حقوق تو نہیں بہہ گئے تو پھر ہم اپنے بنیادی حق سے دستبردار کیوں کر ہو جائیں؟” وہ شیخ عبداللہ اور اس کے حواریوں کو ہمیشہ پورے اعتماد کے ساتھ کہتے رہے : “تمہارے خیال میں اگر قوم نے بھارت کے ساتھ رہنا منظور کرلیا ہے تو یہ تمہاری بھول ہے ۔ یہ بجا کہ تمہارے بھارتی آقاؤں نے جبر سے ان کے سروں کو جھکا لیا ہے ‘لیکن تمہارے ان الفاظ کاجواب تمہیں اس وقت ملے گا جب آج ماؤں کی گودوں میں پلنے والے بچے جوان ہوں گے اور اگر موجودہ نسل نے میرا ساتھ نہیں دیا “تو وہ میرا ساتھ ضرور دیں گے” اندرا عبداللہ گٹھ جوڑ کے خلاف ریاست میں جو طاقتور آواز ابھری ، وہ سید علی گیلانی ہی کی تھی۔