اہم خبریںپاکستان

ا طلاعات کمیٹی، پی ایم ڈی اے مسترد ، صحافتی تنظیموں کا پہلے سے موجود قوانین پرعملدرآمد کا مطالبہ

وزارت اطلاعات سے فیک نیوز کی تعریف، تنظیموں سے پی ایم ڈی اے کے حوالے سے تجاویز تحریری طور پر طلب

پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا کوئی مسودہ نہ ہی اس حوالے سے کوئی آرڈیننس لایا جارہا ہے،وزیرمملکت فرخ حبیب

اسلام آباد(آئی پی ایس )قومی اسمبلی کی ذیلی کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات میں تمام صحافی تنظیموں نے پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو مسترد کر تے ہوئے پہلے سے موجود قوانین کو بہتر بنانے اوران پر عملدرآمد کا مطالبہ کر دیا ۔ کمیٹی نے وزارت اطلاعات و نشریات سے فیک نیوز کی تعریف اور تمام تنظیموں سے پی ایم ڈی اے کے حوالے سے تجاویز تحریری طور پر طلب کر لیں۔وزیرمملکت فرخ حبیب نے بتایا کہ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا کوئی مسودہ نہیں ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی آرڈیننس لایا جارہا ہے ۔بدھ کو کمیٹی کا اجلاس کنوینئر مریم اورنگزیب کی صدارت میں پیمرا ہیڈکوارٹر میں منعقد ہوا جس میں رکن کمیٹی نفیسہ شاہ اور کنول شوزب،وزیر مملکت فرخ حبیب،اور اے پی این ایس،سی پی این ای،پی بی اے ،پی ایف یو جے،آر آئی یو جے،پی آر اے ،ایمنڈ کے عہدیداران نے شرکت کی۔کمیٹی کے اجلاس میں کنوینئر کمیٹی مریم اورنگزیب نے کمیٹی ممبران کا تعارف کروایا گزشتہ میٹنگ میں وزیر اطلاعات نے کہا تھا ہے کہ اس کا کوئی مسودہ نہیں ہے آج کی جو تجاویز آئیں گی ان کو قومی اسمبلی کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کی رپورٹ کا حصہ بنایا جائے گا۔ وزیر مملکت فرخ حبیب نے کہا کہ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے حوالے سے سی پی این ای،اے پی این ایس،پی بی اے اور پریس کلبوں سے اس حوالے سے بات چیت ہوئی ہے ،قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے چیئرمین نے ذیلی کمیٹی بنائی اور کنوینئر مریم اورنگزیب کو بنایا گیا اور ان کا بیان آیا تھا کہ ہم اس کالے قانون کو نہیں مانتے اگر ان کو کوئی اعتراض تھا تو اس کا کمیٹی میں اظہار کرتیں۔ ہمارے پاس ریگولیٹری باڈیز موجود ہیں اور ڈیجٹل میڈیا بھی ہے، ڈیجیٹل میڈیا کوحکومت ریگولیٹ نہیں کرتی ہم ریگولیٹری باڈیز پر چار ارب خرچ کرتے ہیں ،اب ہم ایک اتھارٹی بنانے جارہے ہیں،ہم چاہتے ہیں سب معاملات کو ایک چھتری تلے لے آئیں، پیمرا کے 600 ملازمین ہیں اور ان کے اخراجات پونے تین ارب روپے ہیں ،ریگولیٹری باڈیز کے سارے اخراجات چار ارب بنتے ہیں، میڈیا کمپلینٹ کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے گا، اس میں چار لوگ میڈیا چار حکومتی اور ایک چیئرمین ہوں گے، آئی ٹی این ای میں دس ہزار درخواست آئی ہیں، صرف سات سو کا فیصلہ ہوا ہے، اس کو میڈیا کمپلینٹ کمیشن میں لے کر جا رہے ہیں، اتھارٹی کے سربراہ ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج ہو سکتے ہیں، اس کی اپیل سپریم کورٹ میں ہو گی ،ابھی رائے لی جارہی ہیں ،میڈیا کمپلینٹ کمیشن میں میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی عمل داری نہیں ،لاہور ملتان ،سکھر،بڑے شہروں کمپلینٹ کمیشن بنائے جائیں گے،ڈیجیٹل میڈیا کی پالیسی بنائی جارہی ہے حکومت پہلی دفعہ ڈیجیٹل ایڈورٹائزمنٹ کر رہی ہے، اگر ڈیجیٹل میڈیا کے قوانین موجود نہ ہوں تو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔کنونیئر کمیٹی مریم اورنگزیب نے کہا کہ تجاویز پہلے دے دی گئی ہیں ،بات بعد میں کی جا رہی ہے ایک مسودہ شیئر کر دیا گیا اور اس کو تسلیم نہیں کیا جا رہا بتایا جائے کہ کوئی مسودہ ہے یا نہیں، کسی ملک میں یہ سب کچھ ایک اتھارٹی کے نیچے نہیں ہو رہا، پرنٹ میڈیا کو اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبے دیکھتے ہیں ،اس پرفرخ حبیب نے کہا کہ طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ ایک مسودہ قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے ،پھر کمیٹی میں بحث ہو پھر ووٹنگ سے پاس کروایا جائے ،یا رد کیا جائے ،ہم قانون بنانے سے پہلے مشاورت ہونی چاہیے ،ورکرز کو حقوق ملنے چاہئیں ،فیک نیوز کی بھی بات ہو رہی ہے ،اس وقت پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا کوئی مسودہ موجود نہیں ہے اور نہ ہی کوئی آرڈیننس نہیں آ رہا۔ رکن کمیٹی کنول شوزب نے کہا کہ اطلاعات و نشریات کی کمیٹی میں یہ سب کمیٹی بنی ہے مریم اورنگزیب نے قانون موجود ہی نہیں تو اس کو کالا قانون کہا ہے، میرا اعتراض ہے کہ اس کمیٹی کو دوبارا بننا چاہیے، اب میڈیا نے بہت ترقی کی ہے اور ملک کا سوچتے ہوئے اچھی تجاویز آئیں گی، تو مناسب طریقے سے آگے بڑھ سکیں گے۔ رکن کمیٹی نفیسہ شاہ نے کہا کہ میری پارلیمانی زندگی میں کبھی نہیں ہوا کہ کسی بل کے لانے کے حوالے سے پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے حوالے سے حکومت خود کلیئر نہ ہو، میڈیا کے معاملات کو ایک چھتری کے نیچے لانے کی کوشش کی جارہی ہے، اس میں پیکا کا قانون بہت اہم اس میں وہ موجود نہیں ہے۔ اس پر بات کیا کریں ،اگر کوئی مسودہ ہی نہیں ہے، ایشوکو حکومت خود سامنے لائی جس پر رد عمل آیا ہے ،پی ایف یو جے کے رہنما ناصر ملک نے کہا کہ ہم میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو مکمل مسترد کرتے ہیں ،حکومت نے گزشتہ سال آئی ٹی این ای کا چیئرمین تعینات نہیں کیا، تمام صوبوں کے دارالحکومت میں آئی ٹی این ای ہونا چاہئے، پورے ملک میں صرف اسلام آباد میں ایمپلیمنٹیشن ٹربیونل نیوز پیپرز ایمپلائز ہے تو بلوچستان سے بھی صحافی اپنے حقوق کے لیے آتے ہیں، لیکن اس کا چیئرمین نہیں لگایا جا رہا، الیکٹرانک میڈیا کے ورکرز کے لیے بھی ٹربیونل ہونا چاہیے ،ہم کسی ایسی اتھارٹی کو ماننے کو تیار نہیں ہیں جس کا مقصد کچھ اور ہو ،پارلیمانی رپورٹر ایسوسی ایشن کے صدر صدیق ساجد نے کہا کہ ہم پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو مسترد کرتے ہیں اور سینٹ میں جو پیمرا ترمیمی بل پڑا ہوا اس کو فوری طور پر پاس کروایا جائے،جرنلسٹ پروٹیکشن بل انسانی حقوق کمیٹی میں پڑا ہے اس کو پاس کروایا جائے کیونکہ ہم صحافیوں کا تحفظ چاہتے ہیں ،پی بی اے سے میر ابراہیم نے کہا ہے کہ جب بڑا مشکل ہوتا ہے نیت پر شک نہ کرنا کہ وفاقی وزیر کہے کہ پرنٹ میڈیا تو مرگیا اور الیکٹرانک میڈیا بھی مر رہا ہے، صرف سوشل میڈیا رہے گا جو میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی پر سوال اٹھاتا ہے ،اس کے خلاف حکومت کی طرف سے کاروائی شروع کر دی جاتی ہے، ریگولیشن کے لیے ہمیشہ کام کیا جاتا ہے ،پیمرا نے فیک نیوز پر کتنے نوٹسز لیے ہیں ،قانون موجود ہیں ،پیکا کے قانون موجود فیک نیوز کے حوالے سے ہم نے بہت درخواستیں دی ہیں، لیکن اس پر عمل نہیں ہو رہا ہے، حکومتی وزیر ہمارے خلاف ٹویٹ کر رہے ہیں، تنظیموں کو توڑنے کی کوشش کی جارہی ہے،اظہر عباس صدر نیوز ایڈیٹر ایسوسی ایشن نے کہا کہ جلد بازی کی کیا ضرورت کیا ہے ،جو پہلے سے باڈیز موجود ہیں کیا وہ کام نہیں کر رہیں، سرمد علی صدر اے پی این ایس نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد پرنٹ میڈیا کا سبجیکٹ صوبوں کے پاس ہے ،پاکستان میں دوسرے ممالک کی طرح سے میڈیا ریگولیٹری سسٹم نہیں لایا جا سکتا ۔ سٹیچوری باڈیز کو ختم کر کے ڈائریکٹوریٹ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ویج بورڈ ختم ہو گیا آئی ٹی این ای بھی ختم ہو گیا ہے جو باڈیز ہیں ان ہی کو بہتر بنایا جائے ۔کاظم صدر سی پی این ای نے کہا کہ کیا وجہ ہے کہ آپ پیمرا کو ختم کرنا چاہتے ہیں جو ایدھر کام نہیں کرتے تو کیا اتھارٹی بننے سے کام کریں گے ،وہاں جاکر فرشتے بن جائیں گے ،9 لوگوں کی باڈی میں چار میڈیا کے لوگ اور چارحکومت کے اور ایک چیئرمین ہو گا ،تو اگر حکومت اور چیئرمین ایک طرف ہو جائیں گے تو فیصلہ کیا ہو گا، اس کو ہم تسلیم نہیں کرتے۔مجیب الرحمٰن شامی نے کہا کہ پرنٹ اور الیکٹرانک الگ الگ ہیں ،پریس کونسل کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک کیا گیا ہے ،جو ادارے پہلے ہیں ان کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، شکیل مسعود نے کہا کہ فیک نیوز کیا ہے ہمیں تو پتہ نہیں ہم نے کہا کہ انٹرنیشنل ڈیجیٹل میڈیا ٹیکس ادا نہیں کرتے ،جو رولز موجود ان کو ہی بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔عامر محمود نے کہا کہ ہم اس کو مکمل طور پر مسترد کر دیا۔ وزیر مملکت فرخ حبیب نے کہا کہ ڈیجیٹل میڈیا کے حوالے سے فیس بک کو بھی ہم ٹیکس نیٹ میں لا رہے ہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا کی لائسنسنگ نہیں لا رہے۔ اس پر رکن کمیٹی نفیسہ شاہ نے کہا کہ جو ریگولیٹری باڈیز موجود ہیں ان کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے ۔مریم اورنگزیب نے کہا کہ وزارت کے مطابق کوئی مسودہ نہیں ہے اور کوئی آرڈیننس نہیں لایا جا رہا، زیادہ تر نے اس کو مسترد کر دیا ہے، تمام باڈیز تحریری طور پر دے دیں ،فیک نیوز کی تعریف کیا ہے َ؟اس حوالے سے وزارت اطلاعات ونشریات تحریری طور پر دے گی کیااس اتھارٹی کے لانے سے کسی ادارے سے کسی بھی ملازم کو نکالا نہیں جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker