اہم خبریںپاکستان

پاکستان میں سالانہ 36 ملین ٹن خوراک ضائع ہوتی ہے،سید فخر امام

پاکستان بین الاقوامی برادری کیساتھ ملکر خوراک کے ضیاع اور نقصان کو کم کر سکتا ہے ،آئی سی ایف ایل ڈبلیو
سالانہ400 بلین ڈالر کی خوراک ضائع ہوتی ہے ، یہ ہر سال تقریبا 1.26 ارب مزید لوگوں کو لوگوں کو خوراک فراہم کی جا سکتی ہے، ڈائریکٹر جنرل فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن ڈاکٹرچھو ڈونگ یو
بیجنگ ، وزیر نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ پاکستان سید فخر امام نے خوراک کے ضیاع اور نقصان سے نمٹنے میں عالمی تعاون پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق سالانہ 36 ملین ٹن خوراک ضائع ہوتی ہے جو کہ پیدا ہونے والی خوراک کا 40 فیصد ہے۔ چائنہ اکنامک نیٹ کے مطابق خوراک کے ضیاع اور نقصان سے نمٹنے اور عالمی غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کی ٹھوس مشترکہ کوششوں کیلئے چین کے مشرقی شہر جنان میں بین الاقوامی کانفرنس(آئی سی ایف ایل ڈبلیو ) کا انعقاد کیا گیا جس میں پاکستان سمیت مختلف ممالک کے عہدیدار اور ماہرین اور بین الاقوامی تنظیموں نے شرکت کی ۔فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او)کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹرچھو ڈونگ یو نے ایک ویڈیو خطاب میں کہا کہ ایف اے او کے تخمینہ کے مطابق عالمی سطح پر پیدا ہونے والی خوراک کا 14 فیصد سپلائی چین کے دوران کاشت کے بعد اور پرچون کی سطح پر فروخت کے دوران ضائع ہو جاتا جبکہ خوراک کی کل عالمی پیداوار کا 17 فیصد پرچون فروخت ،فوڈ سروس اور کھپت کے مراحل میں ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔ ڈاکٹر چھو نے کہا کہ ضائع ہونی والی خوراک کی مالیت سالانہ400 بلین امریکی ڈالر ہے جس ہر سال تقریبا 1.26 ارب مزید لوگوں کو لوگوں کو خوراک فراہم کی جا سکتی ہے ۔ سی ای ین کے مطابق وزیر نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ پاکستان سید فخر امام نے ویڈیو لنک کے ذریعے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے خوراک کے ضیاع اور نقصان سے نمٹنے میں عالمی تعاون پر زور دیا اور کہا پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق سالانہ 36 ملین ٹن خوراک ضائع ہوتی ہے جو کہ پیدا ہونے والی خوراک کا 40 فیصد ہے۔ کانفرنس میں 70 خطاب کیے گئے جن میں ماہرین اور عہدیداروں نے پائیدار پیداوار کے طریقوں کو اپنانے کی سفارش کی ، اور فصلوں کی کٹائی، ذخیرہ اندوزی، میکانائزڈ اور معیاری آپریشنز اور نئی ٹیکنالوجیز کے ذریعے خوراک کے نقصان کو روکنے کی تجویز دی ۔ یونیورسٹی آف ایگریکلچر فیصل آباد کے وائس چانسلر ڈاکٹر اقرار احمد خان نے کانفرنس میں کٹائی کے بعد کیخوراک کے نقصان سے نمٹنے کے پاکستانی تجر بات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے کٹائی کے بعد کے خوراک کے نقصان کو کم کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور کلائمٹ سمارٹ اسٹوریج ٹیکنالوجی پر توجہ دی ہے۔ کٹائی کے بعد خوراک کا نقصان جو بنیادی طور پر زیادہ نمی اور کیڑے مکوڑوں کی وجہ سے ہو تا ہے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے، چین کے نائب وزیر زراعت اور دیہی امور ما یو سیانگ نے کہا کہ خوراک کے ضیائع اور نقصان کو کم کرنے کیلئے ایک منظم اور بین الاقوامی کوشش ضروری ہے کیونکہ اس میں نہ صرف پیداوار، کٹائی، لاجسٹکس، اسٹوریج، پروسیسنگ اور فروخت شامل ہے، بلکہ اس میں مقامی اور بین الاقوامی سپلائی اور کھپت، صنعتی اور سپلائی چین دونوں شامل ہیں۔خوراک کے ضیاع اور نقصان میں کمی کی پیچیدگی کو بھانپتے ہوئے شرکا نے اس توقع کا اظہار کیا کہ ایک ایسا میکنزم بنایا جائے گا جس سے اس حوالے سے عالمی تعاون کو سہولت کاری ملے گی۔شرکا نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ عالمی سطح پر خوراک کے نقصان اور ضیاع کی روک تھام کے لئے خصوصی طور پر ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ (آر اینڈ ڈی) پلیٹ فارم بھی تشکیل دیا جائے گا جو متعلقہ شعبہ میں جدت اور سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے لئے تجربات کو فروغ دے گا۔خوراک کے ضیاع اور نقصان سے نمٹنے کے لیے عالمی دانش کو راغب کرنے کے لیے، کانفرنس کے دوران ”غذائی نقصان اور ضیاع پر جنان اقدام” کے عنوان سے خصوصی اعلامیہ بھی جاری کیا گیا، اس میں خوراک کے ضیاع اور نقصان کو کم کرنے کے لیے اہم شعبوں اور تعاون کی سمت کا تعین کیا گیا، جس کے تحت خوراک کے ضیاع اور نقصان میں کمی کے تصور کو مقبول بنانا، انفراسٹرکچر کو بہتر بنانا اور نئی ٹیکنالوجیز کو اپنانا اور پائیدار کھپت کے نمونوں کو فروغ دینا ہے۔ واضح رہے کہ ”خوراک کے ضیاع اور نقصان کو کم کرنا اور عالمی غذائی تحفظ کو فروغ دینا” کے عنوان سے کانفرنس کا انعقاد چین کی وزارت زراعت اور دیہی امور، چین کا قومی ترقی اور اصلاحاتی کمیشن، چین کی قومی خوراک اور اسٹریٹجک ذخائر انتظامیہ اور شینڈونگ کی صوبائی حکومت کی مشترکہ میزبانی کے تحت کیا گیا۔ کانفرنس کا مقصد ایک بین الاقوامی پلیٹ فارم بنانا اور دنیا کو متحد کرنا ہے تاکہ پائیدار ترقی کے ہدف (ایس ڈی جی) کے 12.3 کے ہدف کو حاصل کیا جاسکے تاکہ عالمی سطح پرخوراک کی پرچون اور کھپت کے دوران ضیاع کو آدھا کیا جاسکے، نیز پیداوار اور رسد کے دوران خوراک کے نقصان کو کم کیا جاسکے۔50 سے زائد ممالک، بین الاقوامی تنظیموں، کاروباری اداروں اور این جی اوز کے 300 سے زائد ماہرین اور حکام نے کانفرنس میں شرکت کی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker