تحریر: عمالقہ حیدر
@amalqa_
سوشل میڈیا کو جہاں پرمعلومات کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے وہاں اسکو اکھاڑا بھی سمجھا جاتا ہے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر بیانیے کی جنگ لڑی جاتی ہے بعض دفعہ کسی کے بیانہ سے اتفاق بھی کرنا پڑتا ہے اور بعض اوقات اس کی مخالفت بھی کی جاتی ہے
سوش میڈیا بالخصوص ٹویٹر جس کو معلومات کا اہم ترین پیلٹ فارم سمجھا جاتا ہے اس پیلٹ فارم پر ہرشعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود ہیں اور اپنے خیالات اور تجربات لوگوں سے شئیر کرتے ہیں
ٹویٹر پر موجود بیانیہ کی جنگ لڑنے کے لئے مختلف ٹیمز اور مختلف گروپس بنائے جاتے ہیں بعض ٹیمز اور گروپس کو پذیرائی ملتی ہے اور بعض کو نظرانداز بھی کیا جاتا ہے آئے روز ٹرینڈز بنائے جاتے ہیں جو مختلف بیانیوں کے بارے میں ہوتے ہیں
لیکن بعض عناصر اس پلیٹ فارم پر اپنا سیاسی بغض نکالنے کے لئے یا پھر اپنے گروپس کی یا ٹمیز کی ذاتی رنجش نکالنے کے لئے جعلی اکاونٹس بنا کر ان کا سہارا لیتے ہیں اور پھر انتہائی نازیبا گفتگو کرتے ہیں اور ان جعلی اکاونٹس کی زد میں مرو و خواتین آتے ہیں ۔
ان جعلی اکاونٹس کی بھرمار کی وجہ سے بعض لوگ یا سوشل میڈیا سے کنارہ کشی کرلیتے ہیں یا پھر ان کو بلاک ک دیتے ہیں۔ بلاک بھی اس مسئلے کا حل نہیں کیونکہ یہ لوگ دوبارہ سے اکاونٹس بنا کر حملہ آور ہوتے ہیں ان اکاونٹس کو روکنے کے لئے حکومت کی چاہیے کہ وہ الگ قانون بنائے اور فیسبک یوٹیوب اور ٹویٹر جیسے پلیٹ فارم کے دفاتر اپنے ملک میں قائم کرائے اور یالیسی مرتب کرے
سوشل میڈیا پر ہونی والی ہراسگی کی رپورٹس کے لئے الگ سیل قائم کرے کیونکہ سوشل میڈیا اس وقت سب کی مجبوری بن چکا ہے اور دن بدن کی مقبولیت میں اضافہ ہورہا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس یر موجود صارفین کے حقوق کے حفاظت کے لئے حکومت کو سخت اقدامات کرنے چاہئے تاکہ ففتھ جنریشن وار کو احسن طریقے سے لڑا جاسکے