سید عمیر شیرازی
@SyedUmair95
عرب کومذہبی تاریخ کی ابتداء حضرت ابراہیمؑ کے زمانے سے شروع ہوئی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں نے ان کی تعلیمات کو فراموش کردیا اورعرب جہالت کی تاریخی میں ڈوبتا چلا گیا حتیٰ کہ ظہور اسلام کے وقت عرب میں کوئی مخصوص مذہب نہ تھا بلکہ مختلف مذاہب کے ماننے والے موجود تھے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
بت پرست
اسلام سے پہلے عربوں میں بت پرستی کو عام تھی اور قبائل عرب کی اکثریت بت پرستی تھی خانہ کعبہ میں مختلف اشکال کے تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے ان بتوں میں لات،غزی،مناة،ود، سواع،یقوق،یغوث،نسر، بعل مہشور بت تھے ان بتوں کے نام قرآن میں بھی موجود ہیں ہبل نامی بت سب سے بڑا تھا،عمر و بن لحی پہلا شخص تھا جس نے سب سے پہلے خانہ کعبہ میں بت نصب کیا تھا بتوں کے علاوہ خانہ کعبہ کی دیواروں پر مختلف تصاویر بھی بنی ہوئی تھیں۔
عیسائیت
اہل شام کا مذہب عیسائیت تھا اسلئے شمالی عرب کے وہ قبائل جو حدود شام میں جاکر آباد ہوئے انہوں نے عیسائی مذہب اختیارکرلیا تھا شام کی سرحد کے قریب آباد عرب قبائل لحم، جزام،عاملہ اور تنوخ نے بھی عیسائیت قبول کرلی تھی آل حیرہ کے بادشاہوں نے گو مستقل طور پرعیسائیت قبول نہ کی تاہم اس بناء پر کہ ان کے حرم میں عیسائی عورتیں تھیں اور متعدد بادشاہوں نے عیسائیت کو اپنایا۔
عربوں میں عیسائیت سرحدی قبائل تک محدود نہ تھی عرب کے بعض قبائل بھی عیسائیت کی طرف مائل ہوگئے تھے مثلا نجد کے قریب آباد قبیلہ طے عیسائی تھا مکہ میں قبیلہ قریش میں بنی اسد میں ورقہ بن نوفل اور عثمان بن حویرث نے عیسائیت قبول کرلی تھی، مدینہ میں قبیلہ اوس و خزرج کے چند آدمیوں نے بھی عیسانی مذہب اختیار کرلیا تھا جنوبی عرب میں واقع نجران کی بڑی اکثریت عیسائیت سے وابستہ تھی یمن پر کئی برس تک عیسائی حبشیوں کے تسلط کے باوجود یہاں عیسائیت کو فروغ حاصل نہ ہوا۔
یہودیت
اسلام سے قبل عرب میں یہودیت کے ماننے والے بھی موجود تھے یہودیت کو عیسائیت کے مقابلہ میں زیادہ فروغ ملا یمن کے یہودی بادشاہ زوانواس نے عیسائیت قبول کرنے والوں کو زندہ آگ میں ڈالوادیا تھا جس پر نجشی نے اریاط نامی سردار کو فوج دیکر بھیجا اس طرح عیسائیوں کو زوانواس کے ظلم سے نجات ملی اس واقعے کے بعد شام میں آباد یہودیوں کو انتقاماً مظالم کا نشانہ بنایا گیا تو یہود قبائل بھاگ کرعرب علاقوں خیبر،وادی القریٰ،تیما اور یثرب میں آباد ہوگئے۔
یثرب سے شام تک عرب کے سبزو شاداب مقامات یہودیوں کے قبضے میں تھے یثرب میں توریت کی باقاعدہ تعلیم کیلئے بہت سی درسگاہیں قائم تھیں یثرب میں یہودیوں کے مذہبی اثر کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اوس وخزرج کے قبائل کے لوگ نذر مانتے تھے کہ بچہ زندہ رہا تو اس کو یہودی بنائیں گے۔
آتش پرست
اہل ایران مجوسیت یعنی آتش پرست تھے،عرب کی سرحدیں ایران سے ملتی تھیں اس وجہ سے عربوں میں مجوسیت کے اثرات پائے جاتے تھے قبیلہ تمیم میں زدادہ بن عدس اور اسکا بیٹا حاجب اور اقرع بن حابس مجوسی تھے۔
ستارہ پرست
اہل بابل یعنی عراق والے مدتوں سے ستارہ پرستی کی جانب مائل تھے اور اس کا شمار عراق کے قدیم مذہب میں ہوتا تھا عرب کے چند قابل نے بھی ستارہ پرستی کو اپنالیا تھا اور وہ مختلف اجرام فلکی کی پوجا کرتے تھے مثلا قبیلہ حمیر سورج قبیلہ کنانہ چاند قبیلہ لخم اور قبیلہ جزام مشتری قبیلہ اسد عطارد کی پوجا کرتے تھے۔
عقائد
اسلام سے پہلے عرب میں حسب ذیل عقائد کے ماننے والے موجود تھے
ہامہ: اس عقیدے کے ماننے والوں کا خیال تھا کہ مقتول شخص کی کھوپڑی سے الو پیدا ہوتا ہے جو اس وقت تک چیختا رہتا ہے جب تک انتقام نہ لے لیا جائے۔
صائبہ: اس عقیدے کے نزدیک وہ اوٹنی جو دس بچے جنے مقدس سمجھی جاتی تھی اور اسے آزاد کردیا جاتا تھا۔
ایام الفجار:اس عقیدے کے لوگ سال کے چار ماہ حرام سمجھتے تھے، وہ ذیقعدہ، ذوالحجہ،محرم الحرام اور رجب المرجب میں اپنی مذہبی رسومات انجام دیتے تھے ان دنوں میں قتل وغارت اور لڑنا ممنوع سمجھا جاتا تھا۔