کالم /بلاگز

افغانستان میں تبدیلی

تحریر:  ضیغم ایاز

‎@zaghamayaz

نئی افغان حکومت کو سب سے پہلا اور بڑا مسئلہ معیشت چلانے کا آئے گا۔ معیشت چلانے کے لئے ان کے پاس ایک طاقت تو یہ ہے کہ ان کی کل آبادی صرف چار کروڑ کے لگ بھگ ہے جس کی اوسط عمر نکالی جائے تو 19 سال بنتی ہے۔ یعنی ذیادہ تر آبادی نوجوان اور کام کاج کے قابل لوگوں پر مشتمل ہے۔ انہیں چاہئے کہ اس طرح کی سادہ سی معیشت کا ڈھانچہ کھڑا کریں جس میں حکومت کی ذمہ داری صرف پولیس، فوج، عدالت، سٹیٹ بینک جیسے ضروری ترین کاسٹ سینٹرز تک محدود ہوں۔ ایجوکیشن ( تھیورٹیکل کی بجاے ٹیکنیکل) میڈیکل، ٹرانسپورٹ وغیرہ کی طرح کی سہولیات کو پرائیوٹ شعبے کے لئے چھوڑ دیں۔ ریاستی خرچوں پر پلنے والے نان پروڈیکٹیو کاسٹ سینٹرز مثلا صحافتی تنظیمیں ، وکیلوں کی تنظیمیں اور ثقافتی و کلچرل تنظیموں وغیرہ کا بوجھ بالکل نہیں اٹھانا۔ دنیا بھر میں جہاں جہاں افغان تارکین وطن موجود ہے ان تک پہنچیں اور انھیں افغانستان میں کاروبار کی برانچ کھولنے پر تیار کریں۔ اپنے پڑوس کے ممالک سے بھی تعلیم ، ٹرانسپورٹ، خشک میوہ جات کی پروسیسنگ اور رئیل اسٹیٹ وغیرہ میں انویسٹمنٹ کے لیے دعوت دیں۔ کسی صورت بھی سرکاری ملازمین کی تعداد کو ضرورت سے زائد نہ ہونے دیں ۔ افغانستان جس طرح کے دور سے پچھلے بیس سال میں گزرا ہے اس کے مطابق بے تحاشہ ڈالرز لوگوں کے گھروں میں موجود ہوں گے۔ انھیں کسی طرح پڑوسی ممالک کے کاروباری لوگوں کے ساتھ جوائنٹ وینچرز کروا کر کاروبار میں لگوانے کی کوشش کریں۔ فی الوقت ڈاکومینٹڈ اور ان ڈاکیومینٹڈ اکانومی کے چکر میں نہ پڑیں بلکہ کسی بھی صورت صرف کرنسی کو سرکولیٹ ہونے دیں۔ وہ معیشتیں جو آپ سے پرانی ہیں انھیں ہو بہو کسی صورت بھی کاپی نہ کریں۔ بلکہ وہاں سے صرف آئیڈیاز لیں اور اپنی معیشت کے ایسے انداز کو مرتب کریں جسمیں ریاست کے کاسٹ سینٹرز کم سے کم ہوں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker