
بیجنگ:چین کی ویزا فری پالیسی کے فوائد مسلسل اجاگر ہو رہے ہیں۔ 2025 کے پہلے 9 ماہ میں 178 ملین افراد کی آمد و رفت کے اعداد و شمار اور 12.9 فیصد کی سال بہ سال نمو، ان اعداد کے پیچھے نہ صرف بین الاقوامی سیاحت کا عروج کارفرما ہے، بلکہ یہ مختلف تہذیبوں کے درمیان سمندروں اور پہاڑوں کو عبور کرنے والے گہرے روابط کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ جب کینیڈا کے ثقافتی بلاگر Josh Guvi نے TikTok پر چین میں سفر کے دوران اپنے ثقافتی تجربات شیئر کیے، اور چینی انٹرنیٹ صارفین نے کھلے پن کے ساتھ ان پر تبصرے کیے، تو ہم نے محسوس کیا کہ ویزا فری پالیسی صرف "سیر سپاٹے اور کھانے پینے” والے سیاحوں ہی کو نہیں لاتی، بلکہ اس کے ذریعے تہذیبوں کے درمیان باہمی جائزہ لینے، تحقیق کرنے، سمجھنے کی خواہش اور دوطرفہ تبادلے کے لامحدود امکانات بھی جنم لیتے ہیں۔
Josh Guvi نے چین میں اپنے سفر کے ایک ویڈیو میں کہا: فرض کریں آپ چین گئے، وہاں کے شہر، روشنیاں اور رونقیں بہت شاندار ہو سکتی ہیں۔ لیکن آپ خود کو الگ محسوس کرتے ہیں، جیسے آپ روزانہ کسی تقریب کے تماشائی بنے ہوں، آپ ایسی زبان سن رہے ہوتے ہیں جو آپ نہیں سمجھتے، اور ایسی رسم و رواج کی پیروی کر رہے ہوتے ہیں جو آپ کے لیے اجنبی ہیں۔ جب آپ اردگرد دیکھتے ہیں تو آپ کے اردگرد موجود لوگ آپ سے مختلف نظر آتے ہیں، اور وہ صرف آپ کو ہی دیکھتے رہتے ہیں۔ شاید دنیا ویسی ہی ہے، مختلف مقامات، مختلف لوگ، مختلف گروہ، ہے نا؟ مگر پھر اچانک کوئی نظر ملتی ہے، کوئی مسکان بکھرتی ہے، اور سب کچھ بدلنے لگتا ہے۔ جب آپ تماشائی بننے کی بجائے اس کا حصہ بن جاتے ہیں، تو پتہ چلتا ہے کہ یہ قہقہے آپ کے خلاف نہیں، آپ کے ساتھ ہیں۔ ویسے بھی خوشی کسی مترجم کی محتاج نہیں ہوتی۔اور پھر ایک دن آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ اب چین کو محض دیکھ نہیں رہے، آپ چین کو جی رہے ہیں۔ اگر آپ کو چین یا کہیں اور جانے کا موقع ملے جو آپ کیلئے انجان ہو تو آپ بس اتنا جان لیں کہ تعلق کا احساس کبھی کچھ پانے کا نام نہیں، بلکہ کچھ چھوڑنے کا نام ہے۔جب آپ ایک مقام پر اپنا ٹھکانہ چھوڑ دیتے ہیں تو آپ کو خوشگواری کا احساس ہوگی کہ آپ ہر جگہ کا حصہ بن سکتے ہیں اور کسی بھی جگہ کو اپنا گھر محسوس کر سکتے ہیں ۔
یہ تحریر شاید بہت سے لوگوں کے غیرملکی سفر کے مشترکہ جذبات کی عکاسی کرتی ہے، جو صرف چین تک محدود نہیں۔ اور چینی انٹرنیٹ صارفین کے تبصرے بھی بہت دلچسپ ہیں۔ مثال کے طور پر، صارف buwawa04 نے لکھا: درحقیقت ظاہری شکل و صورت اہم نہیں ہے، کیونکہ ہمارے یہاں 56 قومیتیں ہیں جن کی شکلیں مختلف ہیں۔ چینی زبان نہ آنا بھی اہم نہیں ہے، کیونکہ کچھ اقلیتی گروہوں کی اپنی زبانیں بھی ہیں۔ سب سے اہم چیز کھلا ذہن (Open Mind) رکھنا ہے۔ صارف Lao Wei نے لکھا: آپ اپنی زندگی گزارئیے، اس دوران ایک دو دوست بنا لیجیے، اگر قسمت اچھی ہوئی تو آپ کو محبت بھی مل جائے گی، بس اتنا ہی۔ صرف ایک بات کا خیال رکھیں، ہمارے معاشرے میں اخلاقی حدود و قیود ہیں، ہو سکتا ہے آپ انہیں اہم نہ سمجھیں، لیکن اپنی خوشگوار زندگی کے لیے براہ کرم ان کی پابندی کریں، اس سے آپ کے بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔ صارف Jin نے لکھا: چین میں ضم ہونا مشکل نہیں ہے، بلکہ آپ کی یہ خواہش ہے کہ چین آپ کے آرام دہ طریقے سے کام کرے۔ لیکن پھر بھی، چین آپ کا خیرمقدم کرتا ہے۔
Josh Guvi کے الفاظ میں "الگ محسوس کرنا اور تماشائی بنے رہنا” دراصل بین الثقافتی ملاقاتوں میں پائی جانے والی عام الجھن کو ظاہر کرتا ہے: شکل و صورت کا فرق، زبان کی رکاوٹ، رسم و رواج کا مختلف ہونا۔ یہ اجنبیت صرف چین میں ہی نہیں پائی جاتی، بلکہ یہ مختلف تہذیبوں کے ملاپ کے وقت ایک قدرتی بفر زون کا کام کرتی ہے۔ چین کی ویزا فری پالیسی نے اس قسم کے ملاپ کو زیادہ عام بنا دیا ہے، اور ثقافتی اختلافات کو تجریدی خیال سے نکال کر عملی تجربے میں بدل دیا ہے ، خواہ وہ کھانا آرڈر کرنے کے اشاروں سے پیدا ہونے والی کوئی غلط فہمی ہو، یا پھر بغیر ترجمے کے ہونے والی مسکراہٹوں کا تبادلہ۔ یہی حقیقی رابطے ہیں جو "اجنبی تہذیب” کو کتابوں کی زینت بنے رہنے کے بجائے محسوس کی جا سکنے والے زندگی کے مناظر میں بدل دیتے ہیں، اور لوگوں کو ان کے آرام دہ دائرے سے باہر نکلنے پر مجبور کرتے ہیں، تاکہ وہ خود اور دوسروں کی ثقافتی حدود کا خود بخود جائزہ لینے لگیں۔
تہذیبوں کا باہمی تعلق کبھی بھی یک طرفہ "ضم ہونا” نہیں رہا، بلکہ یہ دو طرفہ "دید” کی کیفیت ہے۔ Josh Guvi کو آخرکار اس بات کا ادراک ہوا کہ "ضم ہونے کے تصور کو چھوڑنے سے ہی تعلق کا احساس ملتا ہے”، اور یہ بات چینی انٹرنیٹ صارفین کے تبصروں سے حیرت انگیز طور پر میل کھاتی ہے۔ چین غیرملکی مہمانوں سے یہ توقع نہیں رکھتا کہ وہ مقامی ثقافت میں ضم ہونے کے لیے اپنی ثقافتی شناخت کو ترک کر دیں، اور نہ ہی غیرملکی مہمانوں کو اس جستجو میں رہنا چاہیے کہ وہ چین کو اپنے مطابق ڈھالیں گے۔ جیسے مسکراہٹوں اور قہقہوں کو ترجمہ کی ضرورت نہیں پڑتی ، ویسے ہی حقیقی تفہیم بھی عموماً اُن لمحات میں جنم لیتی ہے جب ہم پیشگی مفروضوں کو چھوڑ کر برابری کی سطح پر بات چیت کرتے ہیں ۔ اور اختلافات کو تسلیم کر کے باہمی عزت کے جذبوں کو پروان چڑھاتے ہیں۔
چین کی ویزا فری پالیسی کی پیشرفت، بنیادی طور پر پوری دنیا کے لیے ایک تہذیبی دعوت نامہ ہے۔ یہ عملی اقدامات کے ذریعے ثابت کرتی ہے کہ کھلا پن محض غیر فعال طور پر قبول کرنے کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ فعال مکالمے کی ایک شکل ہے؛ یہ یک طرفہ ثقافت نہیں، بلکہ تہذیبوں کا دوطرفہ سفر ہے۔ ویزا فری پالیسی کے تحت، ہر بین الثقافتی ملاقات دراصل ایک تہذیبی مکالمہ ہے۔ جب زیادہ سے زیادہ لوگ تجسس لے کر آتے ہیں اور ہم آہنگی سیکھ کر واپس جاتے ہیں، جب مختلف تہذیبیں باہمی رابطے میں ایک دوسرے سے سیکھتی ہیں اور مشترکہ ترقی کرتی ہیں، تو چین کی یہ کھلی پالیسی معاشی فوائد سے آگے بڑھ کر عالمی اہمیت اختیار کر جاتی ہے۔ یہ پالیسی انسانی تہذیبوں کی ہم آہنگی سے بقائے باہمی کا زندہ نمونہ پیش کرتی ہے اور مشترکہ انسانی مستقبل کی تعمیر کے لیے تہذیبی توانائی فراہم کرتی ہے۔یہی وہ بیش بہا تحفہ ہے جو چین کی ویزا فری پالیسی نے پوری دنیا کے لیے پیش کیا ہے۔




