
بیجنگ :جاپانی وزیر اعظم سانائے تاکائیچی نے حال ہی میں تائیوان سے متعلق اشتعال انگیز بیانات دیے۔ بین الاقوامی رائے عامہ کا ماننا ہے کہ جاپانی وزیر اعظم کا قول و فعل جاپانی عسکریت پسند قوتوں کی طویل مدتی تیاری اور ان کی بتدریج بحالی کی علامت ہے ،اسی لیے انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے ۔ سانائے تاکائیچی کا خیالی "بقا کا بحران ” جاپان کو دوبارہ حقیقی بقا کے بحران کی طرف دھکیل سکتا ہے۔آج، جب سانائے تاکائیچی نے ایک بار پھر "بقا کے بحران” کا ذکر کیا ہے ، تو آئیے پہلے سابق جاپانی وزیر اعظم تومیچی مورایاما کی گفتگو کا جائزہ لیتے ہیں۔تاریخی طور پر، جاپان کی دائیں بازو کی قوتوں نے”بقا کے بحران”کے بہانے چین اور بحرالکاہل کی جنگیں شروع کیں، تاکہ اپنے پوشیدہ سیاسی مقاصد اور توسیع کی سازش کی تکمیل کر سکیں ۔ ان جنگوں نے دنیا کے دیگر ممالک، خاص طور پر ایشیا کے لوگوں کے لیے جسمانی اور ذہنی زخم چھوڑے ہیں۔ 15 اگست 1995 کو، اس وقت کے جاپانی وزیر اعظم تومیچی مورایاما نے ایک سرکاری بیان جاری کیا اور کہاکہ جاپان کی نوآبادیاتی حکمرانی اور جارحیت نے کئی ممالک، خاص طور پر مشرقی ایشیائی ممالک کے لوگوں کو شدید نقصان اور تکلیف پہنچائی ہے۔انہوں نے اس پر مخلصانہ معذرت کا اظہار کیا۔ تومیچی مورایاما نے نشاندہی کی کہ غلط قومی پالیسی نے جاپان کو جنگ کی راہ پر ڈال دیا ہے اور جاپانی عوام کو "بقا کے بحران "کا شکار بنا دیا ہے۔تائیوان کے معاملے پر، سانائے تاکائیچی کو معلوم ہونا چاہیے کہ تائیوان چین کا اٹوٹ حصہ ہے اور اس کا جاپان سے کوئی تعلق نہیں۔ جاپان نے پچاس سال تک تائیوان کو اپنا نوآبادی علاقہ بنایا اور تاریخی حقائق سے ثابت ہے کہ وہ چینی عوام کے خلاف سنگین جرائم کا مرتکب ہوا ۔ ” تائیوان میں کسی واقعے کا ہونا جاپان میں بھی واقعے کے ہونے "کا کہنا نہ صرف مضحکہ خیز ہے بلکہ ناقابل قبول بھی ہے۔حال ہی میں تائیوان لیبر پارٹی، تائیوان سوشل ویلفئر فور م پریپریشن کمیٹی ، کراس سٹریٹ پیس اینڈ ڈویلپمنٹ فورم اور دیگر 30 سے زائد گروپس نے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کرتے ہوئے سانائے تاکائیچی کے بیانات کی سخت مذمت کی اور اس بات پر زور دیا کہ تائیوان کے عوام جاپان کی عسکریت پسندی کے لیے قربانی بننے سے انکار کرتے ہیں۔ تائیوان کی چائنیز کلچر یونیورسٹی کے پرفیسر چھیو ای نے چائنا میڈیا گروپ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ سانائے تاکائیچی کے ان بیانات سے پہلے ہی جاپانی کابینہ میں ” ایٹمی ہتھیاروں سے پاک تین اصول” میں ترمیم کرنے یا انہیں ترک کرنے پر غور کیا جارہا تھا ۔ صاف ظاہر ہے کہ سانائے تاکائیچی تائیوان کے امور کے بہانے چین اور جاپان کے درمیان اختلافات پیدا کررہی ہیں ۔حالیہ برسوں میں، جاپان نے اپنی سیکیورٹی پالیسی میں نمایاں تبدیلیاں کیں، دفاعی بجٹ میں سال بہ سال اضافہ کیا، ہتھیاروں کی برآمدات پر پابندیاں نرم کیں، جارحانہ ہتھیار تیار کرنے کی کوشش کی، اور ” جوہری ہتھیاروں سے پاک تین اصولوں” کو ترک کرنے کا امکان ظاہر کیا ……اس تناظر میں یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ سانائے تاکائیچی کے بیانات جاپان کی عسکریت پسند قوتوں کی طویل مدتی تیاری اور بتدریج بحالی کے عکاس ہیں۔جاپان کے انسٹی ٹیوٹ آف ایسٹ ایشین کمیونٹی کے سربراہ موگاآکی ساکی کا ماننا ہے کہ 1972 کے چین-جاپان مشترکہ اعلامیے میں واضح طور پر کہا گیا کہ تائیوان عوامی جمہوریہ چین کا ناقابل تقسیم حصہ ہے ،تو پھر تائیوان کے معاملے کا جاپان کے "بقا کے بحران”سے کیا تعلق ہو سکتا؟ جاپان-چین تعلقات کو خراب کرنا، پھر جاپان کو امریکہ کی حکمت عملی کی مزید پیروی پر مجبور کرنا، غالباً یہی سانائے تاکائیچی کا ارادہ ہے۔دوسری عالمی جنگ کے بعد سے ،لوگ جاپان کی سفارت کاری پر توجہ دے رہے ہیں کہ وہ کیسے تاریخ سے سیکھتا اور ایشیائی پڑوسیوں کے ساتھ پرامن تعلقات کو دوبارہ قائم کرتا ہے۔ یہ نہ صرف جاپان اور پڑوسیوں کے درمیان باہمی اعتماد بلکہ مشرقی ایشیا میں امن کی بنیاد بھی ہے۔ جنوبی کوریا کی قومی اسمبلی کے اسپیکر وو ون سک نے نشاندہی کی کہ جاپانی وزیر اعظم کے متعلقہ بیانات اور جاپان کی تاریخی مسائل پر غور و فکرمیں کمی ناقابل قبول ہے، اور جاپان کا آئینی ترمیم کو تیز کرنا اس سے بھی زیادہ تشویشناک ہے۔ان بیانات اور متعلقہ جاپانی سرگرمیوں نے مشرقی ایشیا میں امن کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔درحقیقت، سانائے تاکائیچی کے سنگین بیانات نے نہ صرف علاقائی امن پر برا اثر ڈالا بلکہ براہ راست جاپان کی معیشت اور عوامی زندگی کو بھی متاثر کیا ہے .ان بے بنیاد بیانات کے منظر عام پر آتے ہی 18 نومبر کو، ٹوکیو اسٹاک مارکیٹ کے” نکی 225 انڈیکس” میں 3.22 فیصد کی بڑی کمی آئی،بڑی تعداد میں جاپانی بانڈز فروخت کیے گئے، اور جاپانی کرنسی ین کی شرح تبادلہ گر گئی۔ یہ صرف ایک آغاز ہے۔ تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جاپان نے "بقا کے بحران” کے بہانے جو جنگیں شروع کیں، وہ نہ صرف خطے کے لوگوں کے لیے بلکہ جاپان کے عوام کے لیے بھی انتہائی تباہ کن اور طویل عرصے تک زخم دینے والی ثابت ہوئیں، جس کی وجہ سے جاپانی عوام حقیقی معنوں میں "بقا کے بحران” کا شکار ہوئے۔ تاریخ کو یاد رکھنا اور اس کا درست اعتراف کرنا ہی ماضی کی غلطی کو نہ دہرانے سے بچا سکتا ہے ۔ تائیوان کی جاپانی تسلط سے آزادی ،دوسری عالمی جنگ کی فتح اور جنگ کے بعد کے عالمی نظام کا ایک اہم حصہ ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ، جاپان کی دائیں بازو کی طاقتوں کو بھی حقیقت کو درست طور پر سمجھنا چاہیے۔ آج کا چین ہرگز وہ چین نہیں جو غربت جیسے مسائل اور کمزور دفاع رکھتا ہو اور جس پر من مانا ظلم کیا جا سکتا ہو ۔ آج کا چین معاشی اور دفاعی طور پر ایک مضبوط ملک ہے ۔ چین کی قومی خودمختاری کے معاملے میں کسی کی بھی مداخلت ناقابل قبول ہے، اور چین کی قومی وحدت کو کسی بھی طاقت سے روکا نہیں جا سکتا ۔





