
بیجنگ :برازیل کے میگزین "رویسٹا فورم”(Revista Fórum) کی ویب سائٹ نے "چین کا عہد: مغربی گھڑی کے مقابل چینی حکمت عملی” کے عنوان سے ایک خصوصی مضمون شائع کیا،جس میں بتایا گیا کہ اگر ہم یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ چالیس سال پہلے تک انتہائی غربت سے لڑنے والا ملک آج دنیا کی دوسری بڑی معیشت کیسے بن گیا، تو سب سے پہلے ہمیں چین اور وقت کے درمیان خاص تعلق کو سمجھنا ہوگا۔ یہ وقت کسی ایک حکومتی مدت یا چند دہائیوں پر نہیں بلکہ صدیوں اور نسلوں پر محیط ہے۔ پہلی پانچ سالہ منصوبہ بندی سے صنعتی بنیادوں کی تعمیر، غربت کے خلاف صدیوں پر محیط جدوجہد، اور اب چودھویں پانچ سالہ منصوبہ بندی کے ذریعے جدت کی نئی لہر پیدا کرنے تک، چین نے ایک کے بعد ایک پانچ سالہ منصوبے کے ذریعے ترقی کے عمل کو ایک میٹرونوم کی طرح باقاعدگی سے آگے بڑھایا ہے۔ جبکہ مغربی ممالک انتخابات کے چکر میں پھنسے ہوئے ہیں، چین وقت کے ایک مختلف فلسفے کے تحت مستقبل کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔یہ محض پالیسیوں کی تسلسل نہیں، بلکہ ایک ایسا "طویل المدتی نظریہ” ہے جو تہذیب کی گہرائیوں سے پھوٹتا ہے اور ریاستی انتظام کا فلسفہ بن چکا ہے۔ یہ نہ صرف چین کے عروج کی بنیادی وجہ ہے، بلکہ انسانیت کے لیے پائیدار ترقی کا راستہ تلاش کرنے میں بھی ایک گہرا پیغام دیتا ہے۔
چین کا یہ طویل المدتی نظریہ سب سے پہلے اس کے تاریخی تسلسل سے جڑا ہوا ہے۔دنیا کی واحد قدیم تہذیب جو کبھی منقطع نہیں ہوئی، چینی ثقافت نے بہت پہلے یہ حکمت عملی کو پروان چڑھانے کی سوچ لی تھی "جو صدیوں کا منصوبہ نہیں بناتا، وہ ایک لمحے کا منصوبہ بھی نہیں بنا سکتا”۔ جدید چین میں یہی سوچ قومی تعمیر کے ساتھ مل کر منصوبہ بندی کی ایک منفرد روایت بن گئی۔ شیامین شہر کی مثال اس جدید تبدیلی کی ایک زندہ تصویر ہے۔ 1980 کی دہائی میں، شیامین کے سربراہ کی حیثیت سے شی جن پھنگ نے چین کا پہلا 15 سالہ شہری ترقیاتی منصوبہ تیار کیا۔ "1985-2000 شیامین معاشی و سماجی ترقی کی حکمت عملی” نے نہ صرف ایشیا پیسیفک معیشت کے عروج کی درست پیش گوئی کی، بلکہ چین میں طویل المدتی منصوبہ بندی کے ذریعے مقامی ترقی کی بنیاد بھی رکھی۔ طویل المدتی نظریے کو عملی شکل دینے کے لیے مضبوط نظام کی ضرورت ہوتی ہے،
اور چین کا سیاسی نظام ایسے ہی "تاریخی تحمل اور پالیسی تسلسل” کی ضمانت دیتا ہے۔ اول، یہ نظام مغربی ممالک کی طرح حکومتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والی پالیسی رکاوٹوں، وسائل اور مواقع کے ضیاع سے پاک ہے، جس کی وجہ سے چین ایک ہی سلسلہ وار منصوبے پر مستقل مزاجی سے کام کر سکتا ہے۔ چاہے قیادت تبدیل ہو جائے، ملک کے طویل المدتی اہداف اور منصوبے ہمیشہ جاری رہتے ہیں۔ دوم، یہ نظام وسیع جمہوریت اور موثر مرکزیت کا امتزاج ہے۔ چین کی منصوبہ بندی کبھی بھی بند کمرے میں نہیں ہوتی، بلکہ عوامی مشاورت اور سائنسی تحقیق کے بعد ہی اسے حتمی شکل دی جاتی ہے۔ ایک بار فیصلہ ہو جائے، تو پورا ملک متحرک ہو جاتا ہے۔ یہ "منصوبہ بندی پر مبنی انتظامیہ” بازار کی وقتی مفاد پرستی سے بچتی ہے اور ملک کو ثابت قدمی سے اپنے ہدف کی طرف گامزن رکھتی ہے۔ چین کے لیے، طویل مدتی نقطہ نظر محض ایک خیالی فلسفہ ہرگز نہیں ہے ، بلکہ قومی نشاۃ ثانیہ کا اہم ذریعہ ہے۔ اس سے چین کو حیرت انگیز پیش گوئی ملی ہے۔ چاہے عالمی بحران ہو یا وبائی صورتحال، چین اپنے منصوبوں کی بدولت ہر مشکل کو موقع میں بدل لیتا ہے۔ صرف چند دہائیوں میں، چین نے "کھڑے ہونے” سے "امیر ہونے” اور پھر "مضبوط ہونے” تک کا سفر طے کیا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس نظریے نے معاشرے میں صبر و تحمل اور محنت کی روح پیدا کی ہے۔ جب عوام کو یقین ہو کہ ملک کی ترقی مستقل ہے،
تو وہ زیادہ سرمایہ کاری کرنے کا خواہاں ہوتے ہیں اور وقتی مشکلات کے باوجود اصلاحات کو سمجھتے ہیں اور اصلاحات کی حمایت کرتے ہیں۔ یہی اجتماعی سوچ چین کو معاشی تبدیلی، ماحولیات کی بحالی اور مشترکہ خوشحالی کی طرف گامزن کر رہی ہے۔ چین کی کامیابی نے عالمی انتظامیہ کے لیے بھی اہم سبق دیا ہے۔ آج دنیا جن چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے—جیسے موسمیاتی تبدیلی، معاشی تفاوت اور ٹیکنالوجی کے اخلاقی مسائل—وہ کسی ایک انتخابی مدت میں حل نہیں ہو سکتے۔ مغرب کے انتخابی اور سرمایہ دارانہ دباؤ میں گھرا نظام ناکام ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ چین کا تجربہ بتاتا ہے کہ ان مسائل کا حل دہائیوں یا صدیوں کے منصوبوں میں پوشیدہ ہے۔ ساتھ ہی، چین نے ترقی پذیر ممالک کو ایک نیا راستہ دکھایا ہے کہ وہ اپنے ملک کی خصوصیات کے مطابق ترقی کا راستہ اپنا کر کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ خود انحصاری اور دور اندیشی پر مبنی فلسفہ "گلوبل ساؤتھ” کے ممالک کے لیے مغربی مرکزیت سے بالاتر ایک راستہ ہے۔ مستقبل کی طرف دیکھیں تو، "پندرہواں پانچ سالہ منصوبہ” چینی ترقی کا نیا باب کھولے گا۔ اور جب پوری دنیا غیر یقینی صورتحال کا سامنا کر رہی ہے، چین کا طویل المدتی نظریہ ہی وہ چابی ہو سکتا ہے جو ایک پائیدار اور جامع مستقبل کی کنجی ہو۔





