
بیجنگ : "خوراک ہی زندگی ہے، اور سلامتی خوراک کی پہلی شرط ہے۔” 16 اکتوبر کو منایا جانے والا عالمی یوم خوراک، انسانی وجود کی بنیاد کے بارے میں ہماری مشترکہ فکر کو ہمیشہ جگاتا ہے۔ جب اقوام متحدہ کی رپورٹ بتاتی ہے کہ 2024 میں دنیا بھر میں تقریباً 67 کروڑ 30 لاکھ افراد کو بھوک کا سامنا کرنا پڑا، اور 2030 تک بھی 51 کروڑ 20 لاکھ افراد مسلسل خوراک کی قلت کا سامنا کرتے رہیں گے، تو ایسے میں چین نے اپنے "14ویں پانچ سالہ منصوبہ ” کے دوران خوراک کی سلامتی کے میدان میں جو کارنامہ انجام دیا ہے، اس نے نہ صرف اپنی ترقی کی بنیادوں کو مضبوط کیا ہے،
بلکہ عالمی چیلنجز سے نمٹنے اور دنیا کی خوراک کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ایک قابل قدر تجربہ بھی فراہم کیا ہے۔چین ہمیشہ خوراک کی سلامتی کو "قومی اہمیت کے معاملے” کے طور پر دیکھتا ہے ۔ قابل کاشت اراضی کے تحفظ اور جدید ٹیکنالوجی کی بدولت اناج کی سلامتی کو یقینی بنانے کی حکمت عملی کے نفاذ کے ذریعے، چین نے 14ویں پانچ سالہ منصوبہ کی مدت کے دوران اناج کی پیداواری صلاحیت میں تیزی سے پیش رفت کی ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران، چین کی سالانہ اناج کی پیداوار 0.65 ٹریلین کلوگرام سے زائد پر مستحکم رہی اور 2024 میں یہ پہلی بار 0.7 ٹریلین کلوگرام کی نئی سطح پر پہنچ گئی۔ فی کس اناج کی دستیابی 500 کلوگرام تک جا پہنچی ہے ، جو کہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ فی کس 400 کلوگرام کی فوڈ سیکیورٹی لائن سے زیادہ ہے۔ چین نے اناج میں بنیادی خود کفالت اور مکمل غذائی تحفظ حاصل کیا ہے۔ اس کامیابی کے پیچھے 1 بلین مو اعلیٰ معیار کی قابل کاشت اراضی ، 95 فیصد سے زیادہ خود تیار کردہ بیجوں کی اقسام ، کھیتی باڑی میں 75 فیصد سے زائد کی میکانائزیشن شرح اور "فوڈ سیکیورٹی قانون” اور دیگر قوانین کے ذریعے فراہم کردہ پالیسی ضمانتیں ہیں ۔چین نے دنیا کی 9 فیصد قابل کاشت زمین اور دنیا کے 6 فیصد میٹھے پانی کے وسائل کے ساتھ دنیا کی مجموعی آبادی کے پانچویں حصے کو خوراک فراہم کر کے عالمی غذائی تحفظ میں سب سے مضبوط حصہ ڈالا ہے
اور غیر مستحکم عالمی اناج کی منڈی میں یقین کا عنصر شامل کیا ہے ۔ غذائی بحران کے عالمی چیلنج کا سامنا کرتے ہوئے چین نے کبھی بھی صرف اپنی سلامتی تک محدود رہ کر اقدامات نہیں کیے، بلکہ ” خود انحصاری اور دوسروں کو سہارا دینے ” کے جذبے کے تحت اپنے تجربات شیئر کیے، تعاون کو فروغ دیا، اور "بیلٹ اینڈ روڈ” تعاون میں شامل ترقی پذیر ممالک کے لیے زرعی امداد میں مسلسل اضافہ کیا ۔حالیہ برسوں میں، چین نے ترقی پذیر ممالک میں 1000 سے زائد زرعی ٹیکنالوجیز کو فروغ دیا ہے، جس کے نتیجے میں پراجیکٹ کے علاقوں میں فصلوں کی پیداوار میں اوسطاً 30 فیصد تا 60 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ چین اور پاکستان کے درمیان زرعی تعاون نے ایک کثیر الجہتی فریم ورک تشکیل دیا ہے، جس میں ٹیکنالوجی کی منتقلی، افرادی قوت کی تربیت اور صنعتی اشتراک شامل ہے۔ 2024 میں شروع ہونے والے "ہزار زرعی ماہرین کی چین میں تربیت” منصوبے کے تحت دو گروپس کو چین کے صوبہ شانشی کی یانگ لینگ کاونٹی میں ڈرِپ اِریگیشن اور بریڈنگ جیسی بنیادی ٹیکنالوجیز سیکھنے کے لیے بھیجا گیا ہے ۔
تربیت یافتہ افراد کی پہلی کھیپ نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پاکستان واپس جاتے ہوئے مقامی زرعی پیداوار میں جدید ٹیکنالوجی کا اطلاق کیا۔ چینی زرعی ماہرین کی کئی ٹیمیں مختلف ممالک کے کھیتوں اور دیہاتوں تک جا کر مقامی لوگوں کو چین کی بہترین فصلوں کی اقسام، جدید زرعی ٹیکنالوجی، انتظامی تجربہ اور صنعتی ترقی کے ماڈل فراہم کر رہی ہیں۔ جیسے جیسے یہ منصوبے زراعت پر لاگو ہوتے ہیں، پتھریلی زمینیں زرخیز کھیتوں میں بدل جاتی ہیں، بنجر پہاڑی علاقے چاول کی لہروں سے بھر جاتے ہیں، اور غریب گاؤں زندگی سے بھرپور ہو جاتے ہیں۔ مقامی کسانوں نے غربت سے نکل کر خوشحالی کی نئی امید دیکھی ہے۔ غذائی تحفظ میں چین کی کامیابیوں کو عالمی برادری نے بڑے پیمانے پر تسلیم کیا ہے۔ چین میں ایف اے او کے نمائندے ونود آہوجا نے چین کی اناج کی پیداوار میں مسلسل اضافے کو سراہتے ہوئے کہا کہ "اس نے عالمی فوڈ مارکیٹ کو مستحکم کرنے اور عالمی غذائی تحفظ کو یقینی بنانے میں مثبت کردار ادا کیا ہے۔”، جبکہ ایف اے او کے ڈائریکٹر جنرل چھو ڈونگ یو نے بھی واضح طور پر اعتراف کیا کہ چین نے "عالمی خوراک کی پیداوار اور فراہمی کو مستحکم کرنے میں حصہ ڈالا ہے”۔ ان تعریفوں کے پیچھے چین کی وہ عملی کوششیں ہیں جو ایک بڑے ملک کی ذمہ داری کی عکاس ہیں۔ چین نے ٹھوس اقدامات کے ذریعے نہ صرف "اناج میں بنیادی خود کفالت اور خوراک کی مکمل حفاظت” کی باٹم لائن کو برقرار رکھا ہے بلکہ کھلے پن اور تعاون پر مبنی رویے کے ساتھ عالمی فوڈ گورننس میں بھی حصہ لیا ہے۔چین نے سائنس و ٹیکنالوجی کی جدت اور نظامی تحفظ دونوں پر یکساں توجہ دی اور خوراک کے وسیع تصور پر عمل کرتے ہوئے متنوع سپلائی نظام کی تعمیر کی ہے۔خوراک کی سلامتی انسانیت کا مشترکہ مقصد ہے، جس سے جڑے چیلنجز کے حل کے لیے عالمی تعاون ناگزیر ہے۔چین نے "چودہویں پانچ سالہ منصوبہ” کے دوران اپنی عملی تجربات سے یہ ثابت کیا ہے کہ غذائی تحفظ کو قومی حکمت عملی میں نمایاں مقام پر رکھنا، سائنس و ٹیکنالوجی کو سہارا بنانا ، نظام پر عمل کرنا اور باہمی فائدے پر مبنی تعاون کرنا ، غذائی مسائل کے حل کا مؤثر راستہ ہے۔ عالمی غذائی بحران کے چیلنج کا سامنا کرتے ہوئے، چینی دانش، چینی منصوبہ، اور چینی اقدامات نے عالمی خوراک کے تحفظ اور غربت کے خاتمے کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ چینی جواب نہ صرف1.4 ارب سے زیادہ لوگوں کی روزی روٹی کو محفوظ رکھتا ہے، بلکہ دنیا میں خوراک کی سلامتی کے راستے کو بھی روشن کرتا ہے، اور انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کے لیے ایک گرمجوش اور مضبوط بنیاد کا درجہ رکھتا ہے۔