
بیجنگ:15 اکتوبر کو بیجنگ میونسپل ایکولوجیکل انوائرمنٹ بیورو کے ڈائریکٹر چن تیان نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ 2024 میں بیجنگ میں صاف اور صحت بخش فضا والے دنوں کی تعداد 290 تک پہنچ گئی، یعنی تقریباً دس مہینے "خوبصورت دن” رہے ۔ شدید آلودگی والے دنوں کی تعداد صرف دو رہی، جو 2020 کے مقابلے میں آٹھ دن کم ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام نے بیجنگ کے فضائی آلودگی کے انسداد کو "بیجنگ کرشمہ”قرار دیا ہے۔
دس برس قبل اگر کوئی یہ پیش گوئی کرتا کہ آلودگی سے دوچار بیجنگ چند برسوں میں نیلگوں آسمان کا شہر بن جائے گا، تو یہ بات ایک خوش فہمی سمجھی جاتی۔ مگر آج بیجنگ ٹھوس اعداد و شمار کے ساتھ دنیا کو یہ دکھا رہا ہے کہ ماحولیاتی حکمرانی کا ایک جدید کرشمہ حقیقت بن چکا ہے۔
یہ "بیجنگ کا کرشمہ ” صرف ایک شہر کی کامیابی نہیں، بلکہ ایک مؤثر حکمرانی کے ماڈل کی زبردست مثال ہے۔ دنیا کے دیگر بڑے شہروں سے تقابل کیا جائے تو لندن کو "دھند کے شہر” کا داغ مٹانے میں تقریباً تیس سال لگے،لاس اینجلس نے فوٹو کیمیکل اسموگ سے نمٹنے میں نصف صدی لگائی،مگر بیجنگ نے صرف چند برسوں میں PM2.5 کے اوسط ارتکاز میں 60 فیصد سے زائد کمی لا کر دنیا کو حیران کر دیا۔ یہ "چینی رفتار” دراصل نظامی استحکام اور انتظامی صلاحیت کا مظہر ہے۔ جب مغربی دنیا کے بعض رہنما مفاداتی دباؤ میں آ کر ماحولیاتی وعدوں کو وقتی مفادات پر قربان کر دیتے ہیں،تو چین نے دور اندیشی، مستقل مزاجی اور ذمہ دارانہ عزم کے ساتھ دنیا کو دکھایا ہے کہ ایک بڑی طاقت کس طرح زمین کے مستقبل کی محافظ بن سکتی ہے۔ عالمی ماحولیاتی حکمرانی کے نازک موڑ پر، حقیقتاً چین واحد بڑی طاقت ہے جو قول سے زیادہ فعل پر یقین رکھتی ہے۔
بیجنگ کی یہ کامیابی محض اتفاق نہیں بلکہ ایک منظم اور مربوط نظامِ حکمرانی کا کامیاب نتیجہ ہے، جس کا مرکز "ہم آہنگ جامع حکمرانی” کا تصور ہے ، جس میں ماحولیات اور معیشت کو متصادم نہیں بلکہ باہم تقویت دینے والے عناصر سمجھا جاتا ہے۔ یہ ثابت کیا گیا ہے کہ سبز ترقی اور اقتصادی خوشحالی ایک ہی سمت میں رواں دواں ہو سکتی ہیں ۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ سائنسی اور تکنیکی جدت نے بیجنگ کی ماحولیاتی حکمرانی کو "انٹیلی جنٹ دماغ” فراہم کیا ہے، جو تکنیکی طاقت کی مضبوطی کو ظاہر کرتا ہے۔ بیجنگ میں PM2.5 ذرائع کی چار مراحل پر مشتمل تفصیلی تحقیقات، گویا فضائی آلودگی کا ایک طبی معائنہ ہیں۔”آسمان سے مشاہدہ، زمین سے نگرانی، ڈیٹا کا اشتراک اور توانائی کے استعمال کی نگرانی” پر مبنی انٹیلی جنٹ مانیٹرنگ نیٹ ورک نے ماحولیاتی مسائل کی شناخت کی صلاحیت کو گھنٹوں کی سطح تک مؤثر بنا دیا ہے۔ یوں ٹیکنالوجی سے آراستہ تحفظِ ماحول اب اندازوں یا تجربوں پر مبنی نہیں رہا بلکہ سائنس پر مبنی ایک دقیق نظام بن چکا ہے۔اسی دوران، بیجنگ-تیانجن-ہیبئی کے یکجہتی تعاون پر مبنی حکمرانی نے مقامی ماحولیاتی رکاوٹوں کو حل کیا ہے: ہوا کسی انتظامی حدود کے تابع نہیں ہے، اور تینوں خطوں نے یک دِل ہو کر اپنی سرزمین کے سبزے کو محفوظ کیا ہے، جس کے نتیجے میں PM2.5 کے ارتکاز میں نمایاں کمی آئی ہے۔ جغرافیائی رکاوٹوں کو توڑنے والے اس تعاون کی روح نے عالمی بین السرحدی ماحولیاتی حکمرانی کے لیے ایک قابل قدر نمونہ پیش کیا ہے۔
"بیجنگ کرشمہ” محض اعداد و شمار میں بہتری تک محدود نہیں ہے ، بلکہ شہری زندگی کے معیار میں گہری تبدیلی کا مظہر ہے۔آج بیجنگ کا "صاف پانی اور سرسبز کنارے” خواب سے روزمرہ کی حقیقت بن چکے ہیں ، ماحولیاتی معیار کا انڈیکس 71.4 تک پہنچ گیا ہے، جبکہ 7121 اقسام کے جاندار یہاں ریکارڈ کیے جا چکے ہیں— یہ اعداد و شمار دراصل ان بے زبان جانداروں کے اعتماد کا اظہار ہیں،جو اپنے "پیروں” اور "پروں” سے بیجنگ کو اپنا گھر مان چکے ہیں۔جب خارپشت اور جنگلی خرگوش دوبارہ شہری پارکوں میں نظر آتے ہیں، جب نایاب پرندے بیجنگ میں اپنے گھونسلے بنانے کا انتخاب کرتے ہیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہزار سالہ قدیم شہر ایک نئی ہم آہنگی کے ساتھ انسانیت اور فطرت کی مشترکہ دھڑکن بن چکا ہے۔
بیجنگ کا تجربہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ترقی اور تحفظِ ماحول کے درمیان مشکل انتخاب کرنا ضروری نہیں ، نہ یہ مسائل آئندہ نسلوں پر چھوڑنے کی ضرورت ہے،اور نہ ہی عالمی مفادات کی قیمت پر کسی قوم کو وقتی فائدہ حاصل کرنا چاہیے۔بیجنگ کا نیلا آسمان ہمیں بتاتا ہے کہ جب حکمرانی کا نظام طویل المدتی منصوبہ بندی کی صلاحیت، مضبوط نفاذ کا عزم، اور سائنسی جدت کی حکمت رکھتا ہو، تو ماحولیاتی کرشمے قلیل مدت میں حقیقت بن سکتے ہیں۔ یہ "چینی کارکردگی” کوئی استثنا نہیں، بلکہ ایک قابلِ تقلید ماڈل ہے۔ اگر دنیا میں سیاسی یقین اور اجتماعی عزم موجود ہو،تو "بیجنگ کرشمہ” عالمی سطح پر بھی حقیقت بن سکتا ہے ۔ جو ممالک اب بھی ماحولیاتی حکمرانی کی راہ پر ہیں، ان کے لیے بیجنگ کا تجربہ ظاہر کرتا ہے کہ ادارہ جاتی فوائد ماحولیاتی فوائد میں بدل سکتے ہیں،اور سیاسی عزم سبز انقلاب کی محرک طاقت بن سکتا ہے،جبکہ سائنسی و تکنیکی جدت پائیدار ترقی کے لیے ایک مضبوط انجن فراہم کر سکتی ہے۔
"بیجنگ کرشمہ” صرف اس لیے اہم نہیں کہ اس نے تقریباً 22 ملین شہریوں کو صاف ہوا میں سانس لینے کا موقع دیا، بلکہ اس لیے بھی ہے کہ اس نے دنیا کو باور کروایا کہ موسمیاتی تبدیلی جیسے عالمی چیلنج کے مقابلے میں عمل زبانی دعوؤں سے زیادہ قیمتی ہے ،اور اخلاصِ نیت سیاسی مصلحتوں سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔ جب بیجنگ کا نیلا آسمان نایاب سے معمول بن جاتا ہے، تو یہ ایک واضح اور مضبوط پیغام دیتا ہے: ایک خوبصورت سیارہ ممکن ہے، بشرطیکہ ہمارے پاس اسے تخلیق کرنے کا حوصلہ اور حکمت ہو۔