
عالمی جریدے ’بلومبرگ‘ نے انکشاف کیا ہے کہ بھارت کے خلاف پاکستانی میزائلوں کی کامیابی نے امریکی میزائل پروگرام کو تیز کر دیا ہے، پاکستان نے بھارتی طیاروں کو 100 میل دور سے مار گرایا، اس واقعے نے امریکی فوج کو اپنی فضائی برتری برقرار رکھنے کے لیے فوری اقدامات پر مجبور کیا۔
بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق پاک فضائیہ نے چین میں تیار کردہ پی ایل-15 میزائل کا کامیاب استعمال کرتے ہوئے بھارتی جنگی طیاروں کو مار گرایا تھا، پاکستان کے اس کامیاب آپریشن نے خطے میں فضائی برتری کا توازن تبدیل کر دیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اب امریکی ایئر فورس اور نیوی نے لاک ہیڈ مارٹن کے خفیہ اے آئی ایم-260 میزائل کی تیاری کے لیے ایک ارب ڈالر کی فنڈنگ کی درخواست کی ہے۔
امریکی ایئر فورس کے مطابق ہمارے ممکنہ حریفوں نے فضائی برتری کے جواب میں اپنی صلاحیتوں کو ترقی دی ہے۔
دستاویزات کے مطابق امریکی ایئر فورس نے تیاری کے لیے 36 کروڑ 80 لاکھ ڈالر اور اضافی 30 کروڑ ڈالر کی درخواست کی ہے، جب کہ نیوی نے 3 کروڑ 10 لاکھ ڈالر مانگے ہیں۔
بلومبرگ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی جانب سے چینی ساختہ انتہائی طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل سے بھارتی لڑاکا طیارے مار گرائے جانے کے چند ماہ بعد، امریکی فضائیہ اور بحریہ کی فنڈنگ کی درخواستوں سے پتا چلتا ہے کہ وہ بھی 8 سال کی تیاری کے بعد اپنا جدید ہتھیار حاصل کرنے والے ہیں، جو لاک ہیڈ مارٹن کارپوریشن کا اے آئی ایم-260 میزائل ہوں گے۔
بجٹ دستاویزات اور سروس کے بیان کے مطابق دونوں سروس برانچز نے مالی سال 2026 کے لیے، جو یکم اکتوبر سے شروع ہوگا، اس خفیہ نظام کی پیداوار کے آغاز کے لیے تقریباً ایک ارب ڈالر مانگے ہیں۔
ایئر فورس (جو اے آئی ایم-260 یا جوائنٹ ایڈوانسڈ ٹیکٹیکل میزائل کی تیاری کی قیادت کر رہی ہے) نے پہلی بار پیداوار کے لیے 36 کروڑ 80 لاکھ ڈالر مانگے ہیں، اس کے علاوہ 30 کروڑ ڈالر ایک علیحدہ سالانہ غیر فنڈ شدہ ترجیحی فہرست میں شامل کیے ہیں، جو فوجی سروسز کانگریسی دفاعی کمیٹیوں کو جمع کراتی ہیں، بحریہ نے 30 کروڑ 10 لاکھ ڈالر مانگے ہیں۔
میلیس ریسرچ کے تجزیہ کاروں نے پچھلے سال کہا تھا کہ یہ میزائل 30 ارب ڈالر کا منصوبہ بن سکتا ہے، تاہم یہ اس پر منحصر ہے کہ کتنے میزائل تیار کیے جاتے ہیں، یہ لاک ہیڈ مارٹن کے لیے ایک بڑی کامیابی ہوگی، خاص طور پر اس وقت جب کمپنی نے دوسری سہ ماہی کی آمدنی کی رپورٹ میں ایک اعشاریہ 60 ارب ڈالر کے اخراجات اور ممکنہ 4 ارب 60 کروڑ ڈالر کے ٹیکس اکاؤنٹنگ کے نقصان کا انکشاف کیا ہے۔
کمپنی کے لیے نقصانات کو کم سے کم کرنا اور اس نئے طویل فاصلے والے ہتھیار کی تیاری میں اضافہ کرنا نہایت اہم ہے، ایف-35 لڑاکا طیارہ، جو کمپنی کی سب سے بڑی آمدنی کا ذریعہ ہے، اپنی زیادہ سے زیادہ پیداواری سطح پر پہنچ چکا ہے اور کمپنی کئی بڑے پروگراموں میں ناکام ہو چکی ہے، حال ہی میں اسٹیلتھ F-47 لڑاکا طیارہ بوئنگ کمپنی کو مل گیا تھا۔
میلیس ریسرچ کے تجزیہ کار اسکاٹ میکس کے مطابق لاک ہیڈ مارٹن کے میزائل اور فائر کنٹرول ڈویژن میں منافع بخش ترقی نہایت اہم ہے، یہ کمپنی کا سب سے زیادہ منافع بخش شعبہ ہے اور مقامی و بین الاقوامی طلب کی وجہ سے سب سے تیزی سے بڑھنے والا شعبہ بھی ہونا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اصل سوال یہ ہے کہ کیا وہ خفیہ میزائل پروگرام (جسے AIM-260 سمجھا جاتا ہے) پر مستقبل کے اخراجات کو محدود یا مکمل طور پر روک سکتے ہیں؟
جب یہ میزائل بالآخر میدان میں آئے گا ( جس کا فضائیہ نے وقت بتانے سے انکار کیا ہے) تو یہ امریکا کا سب سے جدید فضائی جنگ کا میزائل بن جائے گا، وہ کردار جو اب تک مختلف جدید ماڈلز کے AIM-120 AMRAAM کے پاس تھا، جو 1993 میں متعارف کروایا گیا تھا، ایئر فورس نے یہ نہیں بتایا کہ انہیں نئی پیداوار میں جانے پر کس پیش رفت نے اعتماد دیا ہے۔
مئی میں جب پاکستانی طیاروں نے چینی ساختہ پی ایل 15 میزائلوں سے 100 میل سے زیادہ فاصلے پر بھارتی طیارے مار گرائے، تو طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہوائی ہتھیاروں پر عالمی توجہ مرکوز ہوئی تھی، یورپ کا میٹیور میزائل تقریباً ایک دہائی سے دستیاب ہے لیکن کبھی جنگ میں استعمال نہیں ہوا۔
امریکی ایئر فورس کے مطابق ’ہمارے ممکنہ مخالفین نے فضائی برتری کی صلاحیت دیکھی ہے اور امریکی حریفوں نے اس کے جواب میں ارتقا کیا ہے، ایسا فضائی میزائل جو جدید خطرات کو شکست دے سکے، امریکی فضائی برتری قائم رکھنے کے لیے لازمی ہے۔
پینٹاگون کی گزشتہ سال جاری کردہ چینی فوجی طاقت کی رپورٹ کے مطابق چینی فضائیہ نے غالباً 2023 میں پی ایل 17 فضائی میزائل کو آپریشنل قرار دیا، اور یہ میزائل پی ایل 15 کا نیا ورژن ہے جو 400 کلومیٹر (248 میل) دور تک ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
ایئر فورس نے کہا کہ امریکی نیا میزائل موجودہ فضائی ہتھیاروں کے مقابلے میں زیادہ رینج رکھے گا اور مختلف خطرناک حالات میں مؤثر ہوگا، یوکرینی فضائیہ کے ایک ترجمان نے 2023 میں کہا تھا کہ انہیں فراہم کیا گیا AIM-120 ماڈل تقریباً 100 میل رینج رکھتا ہے۔
یہ نیا ہتھیار لاک ہیڈ مارٹن کے میزائلوں کی لائن میں شامل ہوگا، جن میں جدید پیٹریاٹ انٹرسپٹر، تھاڈ سسٹم، LRASM اینٹی شپ میزائل اور JASSM کروز میزائل شامل ہیں۔ لاک ہیڈ مارٹن کے ترجمان نے پروگرام پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے سوالات ایئر فورس سے کیے جائیں۔
AIM-260 کو ایف-22 اور ایف-35 کے اندرونی ہتھیار خانوں میں رکھنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، لیکن ایئر فورس نے کہا کہ یہ ایف-16 اور ایف-15 طیاروں میں بھی شامل کیا جائے گا۔
سابق ایئر فورس چیف آف اسٹاف جنرل چارلس براؤن نے مارچ 2023 میں ایک سینیٹ کمیٹی کو بتایا تھا کہ یہ میزائل ایئر فورس کے نئے بغیر پائلٹ لڑاکا طیارے ’مربوط جنگی ہوائی جہاز‘ پر بھی نصب کیا جا سکتا ہے، جو اس وقت پرواز کے تجربات سے گزر رہا ہے۔
گزشتہ 15 برسوں میں، ایئر فورس، نیوی اور ڈارپا نے (جو نئے ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی پر تحقیق کرتی ہے) راکٹ موٹرز، وار ہیڈ کی تیاری اور ایک پروگرام TR3 پر 35 کروڑ ڈالر سے زیادہ خرچ کیے ہیں، یہ پروگرام پروپلشن، جدید نیٹ ورکنگ، رہنمائی و کنٹرول الگوردمز، انجن پاور، تھرمل مینجمنٹ اور پانچویں نسل کے طیاروں پر ہتھیاروں کے انضمام پر تحقیق کرتا تھا۔
سروس نے پروڈکشن معاہدے کی تفصیلات ظاہر کرنے سے انکار کیا ہے، بشمول یہ کہ کیا کمپنی لاگت سے زیادہ ہونے کی صورت میں حصہ ڈالے گی۔
لاک ہیڈ مارٹن کو اس میزائل کی خفیہ ترقی کا پہلا معاہدہ اگست 2017 میں ملا تھا، 2 سال بعد، اس وقت کے ایئر فورس کے ہتھیاروں کے پروگرام کے ایگزیکٹو افسر بریگیڈیئر جنرل انتھونی جینا ٹیمپو نے کہا تھا کہ فضائیہ امید رکھتی ہے کہ یہ میزائل 2022 تک میدان میں آجائے گا۔
اس ہفتے، فضائیہ نے یہ بتانے سے انکار کر دیا کہ اے آئی ایم-260 کب آپریشنل ہوگا اور کہا کہ ہر سروس برانچ اپنے مخصوص معیار کے مطابق فیصلہ کرے گی۔




