
امریکی تجارتی نمائندے جیمیسن گریر نے کہا کہ "صدر ٹرمپ کی جانب سے گزشتہ ہفتے متعدد ممالک پر عائد کردہ ٹیرف کا نیا دور ‘بنیادی طور پر طے شدہ’ ہے اور موجودہ مذاکرات میں اسے ایڈجسٹ نہیں کیا جائے گا۔”
30 جولائی کو کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی نے کہا کہ کینیڈا ستمبر 2025 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس میں فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔کارنی کی تقریر کے فوراً بعد ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ” کینیڈا نے فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔اس سے ہمارے لیے ان کے ساتھ تجارتی معاہدے تک پہنچنا بہت مشکل ہو جائے گا۔اس بیان کے بعد 24 گھنٹے کے اندر ٹرمپ نے کینیڈا پر ٹیرف کو 25 فیصد سے بڑھا کر 35 فیصد کرنے کے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیئے۔
ادھر 27 جولائی کو، ٹرمپ اور یورپی کمیشن کی صدر ارسلا وان ڈیر لیئن نے سکاٹ لینڈ میں ٹیرف کے حوالے سے ایک فریم ورک معاہدہ طے کیا۔ یورپی رائے عامہ کا خیال ہے کہ تجارتی شرائط کی بنیاد پر یہ معاہدہ "واضح طور پر ایک غیر مساوی معاہدہ” ہے ، جس میں یورپ کی ہار اور ٹرمپ کی جیت ہے۔
مقامی وقت کے مطابق 30 جولائی کو ، امریکی صدر ٹرمپ نے سوشل میڈیا کے ذریعے اعلان کیا کہ یکم اگست سے امریکہ کو برآمد ہونے والے بھارتی سامان پر 25 فیصد ٹیرف اور دیگر "جرمانے” عائد کیے جائیں گے۔
برازیل کے نائب صدر جیرالڈو الکمن کے مطابق، امریکہ کو برآمد کی جانے والی برازیلی مصنوعات پر کل ٹیرف 50 فیصد تک پہنچ جائے گا۔
کچھ تجزیہ کاروں نے "ٹیرف جنگ” کے حالیہ دور میں امریکہ کے معمول کے فارمولے کا خلاصہ کچھ یوں کیا ہے: "ریسیپروکل ٹیرف” = 10 فیصد بنیادی ٹیرف + اضافی ٹیرف + امریکہ کو فوائد کی منتقلی یا دیگر مراعات۔