
16 جون، علی الصبح ایران نے اسرائیل پر میزائل داغے، جس کی اسرائیلی دفاعی افواج نے اپنے ایک بیان میں تصدیق کی ہے۔ اسرائیل کے کئی حصوں میں فضائی دفاع کے سائرن بج رہے ہیں۔ 13 جون ، علی الصبح سے اسرائیل نے ایران کے خلاف بڑے پیمانے پر فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہیں اور ایران نے بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز کے ذریعے جوابی حملے کیے ہیں۔ ایرانی وزارت صحت کے مطابق مقامی وقت کے مطابق 15 جون کی رات تک ایران میں اسرائیلی حملوں میں 224 افراد ہلاک اور 1200 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔
اسرائیلی کابینہ نے 15 تاریخ کو قومی ہنگامی حالت میں 30 جون تک توسیع کی منظوری دی ۔ اس توسیع کو اسرائیلی پارلیمنٹ کی فارن افیئرز اینڈ سیکیورٹی کمیٹی کی مزید منظوری کی ضرورت ہے۔ ہنگامی حالت اسرائیلی کابینہ کو ایسے قواعد وضع کرنے کی اجازت دیتی ہے جو پارلیمانی قانون سازی کو نظر انداز کرتے ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے 15 جون کو کہا ہے کہ اگر ایران اپنے جوہری پروگرام کو ترک کرنے کا امریکی مطالبہ قبول کر لیتا ہے تو اسرائیل اپنے اقدامات روکنے کے لیے تیار ہے۔ اسی روز کابینہ کے اجلاس میں ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے کہا کہ اگر اسرائیل کی کارروائی جاری رہی تو ایران "زیادہ فوری اور سخت” جواب دے گا۔انہوں نے اسرائیل کی جارحیت کی سختی سے مخالفت کرنے کی ضرورت پر زور د یتے ہوئے کہا کہ حالیہ واقعات نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ اسرائیل "کسی بھی انسانی، قانونی اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری نہیں کرتا ۔
ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مقامی وقت کے مطابق 15 جون کو جی سیون سربراہ اجلاس میں شرکت کے لیے کینیڈا روانگی سے قبل کہا کہ ان کا ماننا ہے کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان معاہدہ طے پانے کا ‘بہت زیادہ امکان’ موجود ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ‘بعض اوقات انھیں لڑنے کی ضرورت ہوتی ہے۔’ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکہ فی الحال ایران کے خلاف اسرائیلی فوجی حملوں میں شامل نہیں ہے ، لیکن یہ "ممکن” ہے کہ امریکہ مستقبل میں اس میں شامل ہوگا۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی جانب سے اس تجویز پر کہ پیوٹن خود ایران اسرائیل تنازع میں ثالثی کا کردار ادا کریں کے جواب میں ٹرمپ نے اپنے کھلے پن کا اظہار کیا۔