
حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہدایت کے مطابق ایلون مسک کی قیادت میںڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی کی جانب سے متعدد سرکاری محکموں کے "اکاؤنٹس کے آڈٹ” نے عدالتی مقدمات اور دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان لڑائیوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔
متعدد امریکی میڈیا کی 9 فروری کی رپورٹس کے مطابق ، واشنگٹن ڈی سی میں یو ایس کنزیومر فنانشل پروٹیکشن بیورو کا ہیڈکوارٹر 10 سے 14 تاریخ تک بند رہے گا۔ کنزیومر فنانشل پروٹیکشن بیورو کے کچھ ملازمین کی نمائندگی کرنے والی نیشنل ٹریژری ایمپلائز یونین نے یہ دلیل دیتے ہوئے مقدمہ دائر کیا ہے کہ یہ اقدام امریکی آئین کی خلاف ورزی ہے۔ حالیہ مقدمات میں امریکی محکمہ خزانہ کا کیس بھی شامل ہے۔ 8 تاریخ کو نیویارک میں ایک وفاقی جج نے ایک عارضی حکم نامہ جاری کیا جس کے تحت مسک کی سربراہی میں حکومتی کارکردگی کے محکمے کو امریکی محکمہ خزانہ کے ادائیگی کے نظام تک رسائی سے روکا گیا ہے۔ اس سے ایک روز قبل 19 امریکی ریاستوں میں ڈیموکریٹک اٹارنی جنرلز نے ایک مشترکہ مقدمہ دائر کیا تھا جس میں الزام عائد کیا گیا کہ ٹرمپ نے مسک کی ٹیم کو سرکاری کمپیوٹر سسٹم تک رسائی دے کر آئینی تحفظ کی خلاف ورزی کی ہے۔اس حوالے سے امریکی نائب صدر وینس نے ایک بیان میں کہا کہ امریکی ججوں کو ایگزیکٹو برانچ کے قانونی اختیارات کو کنٹرول کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔9 تاریخ کو امریکی ٹی وی فاکس نیوز پر نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں ٹرمپ نے کہا کہ امریکی محکمہ تعلیم اور محکمہ دفاع کو بھی آڈٹ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق امریکہ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کا تنازع وفاقی حکومت کے شٹ ڈاؤن کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ گزشتہ سال کے اواخر میں امریکی کانگریس کی جانب سے منظور کیے گئے قلیل مدتی اخراجات کے بل کے مطابق امریکا کی وفاقی حکومت کے فنڈز اگلے ماہ کے وسط تک ختم ہو جائیں گے۔