بین الاقوامی

غلطیوں کا اعتراف اور انہیں نہ بھولنا آج اتنا اہم کیوں ہے؟

میڈرڈ: اسپین کے سرکاری دورے پر موجود جرمن صدر فرینک والٹر اسٹائن مائر نے اسپین کے خود اختیار باسک خطے میں واقع قصبے گرنیکا کا دورہ کیا، جو 1937 میں نازی جرمنی کی بمباری کا نشانہ بنا تھا اور جس کے نتیجے میں سیکڑوں افراد ہلاک اور قصبہ کھنڈر بن کر رہ گیا تھا۔اس دن، شاہ سپین فلپیپے ششم سمیت دیگر افراد کے ہمراہ، اسٹائن مائر نے بمباری میں ہلاک ہونے والوں کی یادگار پر پھول چڑھائے اور متاثرین سے دکھ کا اظہار کیا۔

اپنے سرکاری دورے کے آغاز میں، اسٹائن مائر نے 1937 میں گرنیکا پر بمباری کے لیے جرمنی کی ذمہ داری کو واضح اور مضبوط الفاظ میں تسلیم کیا، اور اس بات پر زور دیا کہ "جرمنوں کو تاریخ میں کیے گئے جرائم کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔” یہ بیان نہ صرف تاریخ کے سیاہ دور کا براہ راست سامنا ہے بلکہ پیچیدہ اور بدلتے ہوئے عالمی سیاسی منظر نامے کے موجودہ تناظر میں تاریخی ذمہ داری اور اخلاقی شعور کا دوبارہ عہد بھی ہے۔دوسری جنگ عظیم کے بعد سے، جرمنی نے بتدریج جنگی جرائم پر اپنی تفہیم کو گہرا کیا ہے۔ 1970 میں وارسا میں اس وقت کے مغربی جرمنی کے چانسلر ویلی برانٹ کے ” دونوں گھٹنے زمین پر رکھنے” سے لے کر، 1997 میں جرمنی کے سابق صدررومن ہرزوگ کے عتراف تک کہ "جرمن پائلٹ گرینکا پر فضائی بمباری کے مجرم تھے” اور اس سال، پولینڈ میں اسیویں سالگرہ کی یادگاری تقریب میں اسٹائن مائر کی طرف سے متاثرین سے جھک کر معافی مانگنے تک ، جرمنی نے اپنے مسلسل اعتراف سے "میموری آف کرائمز ” کے تناظر میں تاریخ پر غور و خوض کو اپنی قومی شناخت کے ایک حصے میں تبدیل کیا ہے۔ اسٹائن مائر نے اسپین میں اپنے حالیہ بیان میں ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے نہ صرف سانحہ گرنیکا کو جرمنی کا واضح جرم قراردیا، بلکہ یہ مطالبہ بھی کیا کہ جرمن عوام تاریخ میں کیے گئے جرائم کو کبھی فراموش نہ کریں۔ "غلطیوں کو تسلیم کرنے” سے لے کر "تاریخی جرائم کی ذمہ داری قبول کرنے” تک کا یہ ارتقاء جرمنی کے خود اعترافی کے طریقہ کار کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔اس کے برعکس، تاریخی جرائم کے بارے میں جاپانی حکومت کا رویہ ہمیشہ مبہم رہا ہے۔

بلخصوص، تائیوان کے بارے میں موجودہ جاپانی رہنما کے حالیہ غلط بیانات نے نہ صرف چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی اور بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی تعلقات کے بنیادی اصولوں کو پامال کیا، بلکہ جنگ کے بعد کے بین الاقوامی نظم و نسق کو بھی کھلم کھلا چیلنج کیا۔ سانائے تاکائیچی کے تائیوان کے بارے میں غلط بیانات کو دو ہفتے سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ واضح تصحیح کرنے کے بجائے، جاپان نے نام نہاد "وضاحت” کے ساتھ اس معاملے کی سنگینی کو کم کرنے اوربغیر کسی قیمت کے "سافٹ لینڈنگ” کی کوشش کی ہے ۔ یہ خود فریبی نہ صرف بچگانہ ہے بلکہ انتہائی خطرناک بھی۔تاریخ ایک آئینہ ہے جو کسی قوم کے اخلاقی کردار اور سیاسی ذمہ داری کی عکاسی کرتا ہے۔ جرمنی نے اپنے جرائم کبھی نہ بھولنے کے رویے سے نہ صرف بین الاقوامی برادری کا اعتماد اور احترام حاصل کیا بلکہ اپنے تاریخی جرائم کو امن برقرار رکھنے کی عملی ذمہ داری میں بدلا ہے۔ جبکہ جاپان کے قول و فعل سے نہ صرف چین-جاپان تعلقات شدید متاثر ہوئے ہیں بلکہ خود جاپان کی بین الاقوامی ساکھ اور علاقائی استحکام کو بھی نقصان پہنچایا جا رہا ہے ۔ جاپانی وزیر اعظم کے تائیوان کے امور پر بیانات کے بعد ،جاپان کی سیاحت کی صنعت، سٹاک مارکیٹ، اور حکومتی بانڈز سبھی نمایاں طور پر متاثر ہوئے ہیں، اور اس کی قیمت بالآخر عام جاپانی شہری اور کاروبارادارے ہی ادا کریں گے ۔

غلطیوں کو بروقت درست کرنا ہی قومی مفادات کے لئے درست اور ذمہ دارانہ طریقہ ہے۔ چینی عوام امن کی قدرکرتے ہیں اور چین-جاپان دوستی کی توقع بھی رکھتے ہیں، لیکن یہ کسی بھی طرح اصولوں کی پاسداری اور بنیادی مفادات کے احترام کے بغیر ممکن نہیں ۔ اس وقت، صورتحال کو بگڑنے سے روکنے کا سب سے بہتر اور موثر طریقہ یہی ہے کہ جاپانی رہنما اپنی غلطیوں کوجلد از جلد تسلیم کریں اور انہیں درست کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائیں۔ تائیوان کے امور چین کے مرکزی مفادات کا مرکز ہیں ۔ یہ کوئی سیاسی آلہ نہیں ہے جسے کوئی بھی ملک اپنی مرضی سے استعمال کرے ،نہ ہی جاپان کے لیے کسی سفارتی مظاہرے کا میدان۔ چین نے واضح کیا ہے کہ اگر جاپان اپنی غلطی پربضد رہا تو اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کی اسی سال مکمل ہونے کے موقع پر جرمنی کا ” میمور ی آف کرائمز ” کو اپنی خارجہ پالیسی کے اخلاقی سنگ بنیاد کے طور پرلینے پر اصرار خاص طور پر قابل قدر ہے۔ "کبھی نہ بھولنے” کی پالیسی اپنانے کی یہ ہمت بین الاقوامی برادری کی کم یاب قیمتی اخلاقی دولت ہے ۔ حقیقی اعتراف معاملے کی سنگینی کو کم کرنے کا کوئی مبہم بیان نہیں ہے، بلکہ یہ ایک اجتماعی شعور ہے جو نسل در نسل جاری رہتا ہے۔ جرائم کا تعلق ماضی سے ہو سکتا ہے لیکن ان جرائم پر موجودہ رویہ ہی اصل کلید ہوتی ہے۔ تاریخ کو یاد کرکے ہی مستقبل کا سامنا کیا جا سکتا ہے۔

Back to top button

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker