بین الاقوامی

برطانیہ جانے کی غیر قانونی کوشش میں خواتین اور بچوں سمیت31افرادہلاک

فرانس سے برطانیہ جانیوالی تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے سے 31 افراد ہلاک ہوگئے۔فرانسیسی پولیس کے مطابق تارکین وطن فرانس سے انگلینڈ جانے والے رودبار انگلستان کو عبور کرتے ہوئے شمالی بندرگاہ کیلیس کے قریب ڈوب گئے تھے ۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق یہ واقعہ فرانس کے ساحلی شہروں کیلے اور ڈنکرک کے قریب پیش آیا۔ تارکین وطن فرانس اور برطانیہ کے درمیان واقع انگلش چینل کے راستے برطانیہ جانے کی کوشش کررہے تھے۔ ماہی گیروں نے پانی میں بے ہوش افراد، لاشوں اور خالی کشتی کو تیرتا ہوا دیکھا جس کے بعد متعلقہ حکام کو مطلع کیا گیا۔فرانسیسی وزیر داخلہ جیرالڈ ڈرمینین نے بتایا کہ کشتی پر غالبا 34 افراد سوار تھے۔ 31 افراد کی لاشیں ملی ہیں۔ ان میں پانچ خواتین اور ایک کمسن بچی شامل ہے۔ د و افراد کو بچالیا گیا ہے جبکہ ایک شخص اب بھی لاپتہ ہے۔ ان لوگوں کی قومیت فوری طور پر معلوم نہیں ہوسکی ہے۔ڈرمینین نے کہا کہ انگلش چینل میں مہاجرین کے ساتھ ہونے والا یہ اب تک کا بدترین حادثہ ہے۔مہاجرین کی بین الاقوامی تنظیم کے اعدادوشمار کے مطابق سن 2014 کے بعد سے انگلش چینل میں مہاجرین کی کشتی کے ڈوبنے کا یہ سب سے ہلاکت خیز واقعہ ہے۔ڈرمینین نے فرانس کے بی ایف ایم ٹی وی کو بتایا کہ کشتی سانحے کے سلسلے میں چار مشتبہ اسمگلروں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔فرانسیسی صدر نے اس حادثے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے یورپی یونین کے مہاجرت کے امور کے وزرا کی ہنگامی میٹنگ طلب کرنے کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے کہا،”انگلش چینل کو قبرستان میں تبدیل ہونے کی “اجازت نہیں دی جائے گی۔برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا کہ وہ انگلش چینل میں مہاجرین کی موت سے” انتہائی صدمے میں اور غمزدہ ” ہیں۔جانسن نے کہا،” میری ہمدردیاں متاثرین اور ان کے کنبے کے ساتھ ہیں۔ یہ انتہائی افسوس ناک ہے کہ انہیں اس مصیبت کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن یہ حادثہ اس امر کو بھی اجاگر کرتا ہے کہ انگلش چینل کو اس طرح پار کرنے کی کوشش کرنا کتنا خطرناک ہوسکتا ہے۔”جانسن نے کہا کہ برطانیہ کو”انسانی اسمگلروں کو انسانوں کی اس تجارت کو تباہ کرنے کے لیے ہر ممکن طاقت استعمال کرنا چاہیے اور ہم اسے ختم کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑیں گے۔”انہوں نے مزید کہا،” ہمیں اپنے فرانسیسی دوستوں، اپنے یورپی پارٹنرز کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔ میں چینل کے دوسری طرف کے اپنے ساتھیوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم سب مل کر کام کریں اور ان گروہوں کو توڑنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کریں۔”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker