
قومی اسمبلی اجلاس،شہباز،بلاول کا سانحہ مری پر وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ
- 10 جنوری, 2022
- 0
اسلام آباد،قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور بلاول بھٹو نے سانحہ مری پر حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے وزیراعظم سے مستعفی ہونے اور تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کر دیا جبکہ وزیر اطلاعات فواد چودھری نے شور کرنے والے اپوزیشن اراکین کو چمچے، کھڑچھے قرار دیتے ہوئے کہا کہ شریف فیملی اپنے محلات نہ بناتی تو آج ہمیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتے، شہباز شریف نے حادثے پر شعبدہ بازی کی لیکن کہنے کو کچھ نہیں تھا، سانحہ مری پرہرآنکھ اشکبارہے، یہ چھوٹے دل کے لوگ ایوان میں آگئے ہیں۔
پیر کو قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت ایک گھنٹہ تاخیر سے شروع ہوا۔اجلاس کے دوران سانحہ مری میں جاں بحق ہونے والے افراد ،چیئرمین سینیٹ کے بھائی کیلئے فاتحہ خوانی کی گئی۔سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ اپوزیشن سے بات ہوئی ہے اور یہ طے ہوا ہے کہ آج ہم مری سانحہ کے اوپر بات کرینگے ،فنانس بل پر (آج)منگل سے بحث کا آغاز ہو گا۔مری واقعہ پر بحث سے پہلے قائمہ کمیٹیوں کی رپورٹس پیش ہونگی اسکے بعد سانحہ مری پر بات کی جائے گی۔اس موقع پر سپیکر اسد قیصر نے ریاض فتیانہ کو قائمہ کمیٹی کی رپورٹس پیش کرنے کی ہدایت کی تو اپوزیشن ارکان کے احتجاج شروع کر دیا اور کہا کہ طے ہوا تھا کہ مری واقعہ پر بات کی جائے گی،جس بات پر اتفاق ہوا اس پر عمل کیا جائے،جس پر سپیکر اسد قیصر نے مری واقعہ پر بحث کا آغاز کروایا۔اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے کہا کہ میں اپنے اور معزز ایوان کی طرف سے مری میں دلخراش اور اندہوناک واقعہ ہوا جس کے نتیجے میں 23افراد اللہ کو پیارے ہو گئے۔20گھنٹے لوگ اپنی گاڑیوں میں پھنسے رہے،وہاں برف باری جاری رہی اور کوئی انکو پوچھنے والا نہیں تھا ،بزرگ اور نوجوان دم توڑ گئے ،کوئی انکا پرسان حال نہیں تھا ،میرا سوال ہے کہ کیا یہ کوئی قدرتی حادثہ تھا یا انسانی غلطی تھی،حقیقت یہ ہے کہ وہاں کوئی انتظام نہیں تھا ،ٹریفک پولیس وہاں موجود نہیں تھی ،برف ہٹانے والی مشنری اور اہلکار موجود نہیں تھے ،لوگ اپنی جانوں کی بھیک مانگتے رہے مگر وہاں کوئی پرسان حال نہیں تھا،زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے ، یہ واقعہ انتظامی،بدترین نالائقی اور نااہلی کا مجرمانہ فعل ہے ،جس کی کوئی معافی نہیں ہے،جب محکمہ موسمیات نے آگاہ کر دیا تھا کہ شدیدبرف باری ہونے والی ہے ،تو انہوں نے کیا انتظامات کئے ،جب پورا نظام موجود تھا،اسلام آباد میں سیف سٹی کے کیمرے لگے ہوئے ہیں ،اگر بے پناہ رش تھا تو سیاحوں کو روکنے کیلئے کیا انتظامات کئے؟،کیا انہوں نے ریڈ الرٹ جاری کیا؟جسکی شدید ضرورت تھی ۔شہباز شریف نے کہا کہ خود نمائی کے لیے بات نہیں کرنا چاہتا، مری جیسے علاقوں میں ہرسال ایشوزہوتے ہیں جنہیں حل کیا جاتا ہے،مری میں پہلی بار تو برف باری نہیں پڑی،گزشتہ دو سالوں میں کویڈ کی وجہ سے لوگ برف باری دیکھنے نہیں جا سکے تھے ،اب لوگوں نے ملکہ کوہسار کا رخ کیا تو ان کی مجرمانہ غفلت کہ وجہ سے لوگوں کی خوشیاں غم میں بدل گئیں،پورا پاکستان اشک بار ہے مگر ان کے اوپر جوں تک نہیں ریگی ،ٹوئٹ کیا گیا کہ انتظامیہ تیار نہیں تھی تو پھر آپ کس مرض کی دعا ہیں ،کچھ نہیں کر سکتے تو استعفیٰ دیں اور گھر جائیں ،اس قوم کی جو اپ نے تباہی کر دی اس سے چھٹکارا حاصل کریں۔ایک محترم وزیر نے بیان جاری کیا کہ کیا معیشت چل رہی ہے،ہزاروں لوگ مری جا رہے ہیں، ہوٹلوں میں جگہ نہیں مل رہی ،مہنگے کھانے کھائے جا رہے ہیں۔اور پھر جب یہ حادثہ ہوا ،تو نیرو بانسری بجا رہا تھا،ایک نیرو اسلام آباد میں سویا ہوا تھا اور دوسرا نیرو پنجاب میں انتظامی امور کی آڑ میں بلدیاتی الیکشن میں دھاندلی کرنے میں مصروف تھا،کبھی کے پی کے کے اوپر الزام لگایا جا رہا تھا ۔دیکھتی آنکھوں نے ایسا دلخراش واقعہ پہلے نہیں دیکھا،مری اور خوبصورت علاقوں میں لوگ ہر سال جاتے ہیں،مری میں باقاعدہ ایس او پیز اور احتیاطی تدابیر کئی سال سے بنیں تھیں،ہر سال اس پر عمل ہوتا تھا کہ نمک کے سٹاک کہاں رکھنے ہیں، مسلم لیگ ن کی حکومت نے اربوں روپے کی مشنری خریدیں ،وقت سے پہلے سٹرکیں مرمت کی جاتی تھیں ،مگراس سال اس کا کوئی انتظام نہیں تھا ، یہ غفلت کی نیند سو رہے تھے،جس طرح انہوں نے معیشت کو برباد کیا ہے ،جسطرح انہوں نے پاکستان کے غریب سے دوائی اورمنہ سے نوالہ چھین لیا ہے،آج لاکھوں لوگ بے روز گار ہیں، اسی طرح انہوں نے مری واقعہ کو ڈیل کیا ہے،یہ ایک مجرمانہ فیل ہے ،ہمارے زمانے میں ایڈوانس میٹنگ ہوتی تھی جس میں ایم این ایز ،ایم پی ایز ،انتظامیہ کے اجلاس ہوتے تھے ،بجٹ مختص کیا جاتا تھا ۔باقاعدہ پلان بنتا تھا اور اس پر عملدرآمد ہوتا تھا ،مگر یہ لوگ ایسے کرنے کی بجائے اپنی ٹوئٹس میں مصروف تھے۔انہوں نے کہا کہ 20 گھنٹے تک کسی کو کوئی علم نہیں تھا کہ کیا ہوا ہے ،کوئی بتا سکتا ہے کہ نمک کا سٹاک کہاں رکھا،کوئی مانیٹرنگ ٹیم بنائی ؟کب ریڈالرٹ جاری ہوا؟مانیٹرنگ ٹیمیں بنائی جو دیکھتیں،23 افراد جو اللہ کو پیارے ہو گے ہیں یہ حکومت 100 فیصد اسکی ذمہ دار ہے ،قوم یہ خون انکو معاف نہیں کریگی،ان سے حساب لے لگی ۔انہوں نے پھر یوٹرن لیا ،وزیر اعظم نے کہا کہ انتظامیہ تیار نہیں تھی اگر انتظامیہ تیار نہیں تھی تو اپ کس مرض کی دعا ہیں ،استعفیٰ دیں اور گھر جائیں،ورنہ قوم انکو گریبان سے پکڑ کر باہر نکالے گی،یہ نیرو ہیں جو بانسری بجا رہے ہیں،قوم بے حال ہے،قوم بھوک افلاس سے مر رہی ہے مگرانکو کوئی سروکار نہیں،انکو صرف ایک ہی کام گالم گلوچ اور اپوزیشن کو دیوار سے لگانا آتا ہے،انکے پاس اس کے علاوہ کوئی کام نہیں آتا ، اپوزیشن کو داد دیتا ہوں جنہوں نے بہادری سے انکا مقابلہ کیا،اب انہوں نے سرکاری افسروں کی کمیٹی بنا دی،یہ کتنا بڑا مذاق ہے ،جب قصور کے واقعہ ہوا تو یہ سب وہاں پہنچے اور مطالبہ کیا کہ جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔آج سرکار ی افسروں کی کمیٹی بنا رہے ہیں،ایسا نہیں ہو گا قتل معاف نہیں ہوگا،ہمارا مطالبہ ہے کہ جوڈیشل کمیشن بنایا جائے اور جو اسکے زمہ دار ہیں انکو قرار واقعی سزا دی جائے اور مجرموں کو قوم کے سامنے لایا جائے۔جو لمبے بوٹوں کا طعنہ دیتے تھے ،ڈینگی برادران کا طعنہ دیتے تھے ،اج پھر ڈینگی انکے دور میں آیا ،یہ ایوان انکی بدترین نااہلی کی مزمت کرتا ہے ،اپوزیشن ارکان کی تقریروں کے بعد ایک مذمتی قرار داد منظور کی جائے جس کا بنیادی نقظہ یہ ہو کہ جوڈیشل کمیشن بنایا جائے ،اس سے کم پر کوئی بات نہیں ہو گی ،، وہ جوکل کہتے تھے لمبے بوٹ پہن کرشوبازی کرتے تھے آج آئینہ ان کو چہرہ دکھا رہا ہے، بڑا بول نہیں بولنا چاہیے، قوم کی خدمت سچے دل سے کی جاتی ہے۔وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے شہباز شریف کی تقریر کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ توقع تھی کہ شہباز شریف ایک لیڈر کی طرح بات کریں گے، انہوں نے 30، 30 سال حکومت کی لیکن یہ لیڈر نہیں بن سکے،شہباز شریف نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ وہ ایک معمولی شعبدہ باز ہیں،ایک ایسا سانحہ ہوا جس پر تمام قوم اشکبار ہے، لیڈر پیدا ہوتے ہیں جعلی طریقے سے بنائے نہیں جاتے ، فواد چوہدری نے اپنی تقریر کے دوران شور کرنے والے اپوزیشن ارکان کو چمچے کڑچھے قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج کے دور کا پبلوایسکوبار ہمیں بتا رہا ہے کہ نیرو سو رہا تھا ، تیس تیس سال انہوں نے حکومت کی اور آج ہم سے سوال کر رہے ہیں، انہوں نے جو محل بنائے ہیں وہ نہ بنائے ہوتے، مری اور پنجاب پر وسائل خرچ کئے ہوتے تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا،ہم نے تین سالوں میں 13 نئے ریزارٹس بنائے ،وزیر اعظم عمران خان نے بلین ٹری سونامی کا آغاز کیا ،ملک میں سیاحت کو فروغ دیا، آج پاکستان میں اندرونی سیاحت میں انقلاب برپا ہو چکا ہے،آج یہ ہمیں سبق دے رہے ہیں کہ کیا کرنا چاہیئے تھا اور کیا نہیں کرنا چاہیئے، فواد چوہدری نے کہا کہ ایک لاکھ چونسٹھ ہزار گاڑیاں پانچ دن میں مری میں داخل ہوئیں ، پاکستان تحریک انصاف کے ایم این ایز، ایم پی ایز اور ورکرز مری میں عوام کے ساتھ کھڑے تھے، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے لیکر ن لیگ کا ایک ایم این اے، ایم پی اے وہاں نہیں گیا، فواد چوہدری نے کہا کہ24گھنٹے میں روڈ کلیئر ہوئے، وزیر اعلیٰ پنجاب مری میں تھے، فواد چوہدری نے شہباز شریف پر تنقید جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ان کی تمام تر ترقی اپنے گھروں کے اردگرد ہوئی ہے،فواد چوہدری نے کہا کہ ہم نے نیا پاکستان کا وعدہ کیا ہے ،نئے پاکستان کو ہم تعمیر کر رہے ہیں ،ہم ان کے بوئے ہوئے کاٹنے صاف کر رہے ہیں ، ان کا رونادھونا جاری رہے گا۔ ایم کیو ایم پاکستان کے رکن اسمبلی صلاح الدین نے کہا کہ اس واقعہ پر حکومت کی طرف سے یا اپوزیشن کی طرف سے کوئی سیاست نہیں ہونا چاہیئے یہ قومی سانحہ ہے، سب سے بڑی ذمہ داری مری کی تحصیل انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے، موجودہ حکومت نے سیاحت پر بہت توجہ دی ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ایک وزیرنے سوشل میڈیا پرکہا لاکھوں لوگ مری پہنچے ہیں، ایک وزیرسوشل میڈیا پرجشن منارہا تھا، اسی وزیرنے پھرکہنا شروع کردیا سیاحوں کونہیں آنا چاہیے تھا، ایسی منافقت پاکستان کی تاریخ میں نہیں دیکھی،وزرا کے ایسے بیانات کوئی نئی بات نہیں ہے،جب بھی کوئی حادثہ ہوتاہے توموجودہ حکومت متاثرہ لوگوں کوموردالزام ٹھہراتے ہیں، وزیراعظم نے ہزارہ واقعے پرکہا تھا کہ لاشوں سے بلیک نہیں ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ مری میں جاں بحق ہونے والے 23افراد کے متاثرہ خاندانوں کے ساتھ اظہار افسوس کرتے ہیں، افسوس مری میں جو مدد کرنا چاہیے تھی نہیں کر سکے، جب وزیراعظم کے خاندان کا ایک فرد چترال میں پھنسا ہوا تھا تو ہر قدم اٹھایا گیا، مری وزیراعظم کے گھرسے دوگھنٹے دورتھا، کوئی تو نوٹس لیتا۔بلاول بھٹو نے کہا کہسانحہ مری پر حکومت، وزرا کی طرف سے سیاست کرنے پر مذمت کرتے ہیں، وزراء سیاست سے پہلے انسانیت سیکھیں ، یہ سیاست کرنے سے پہلے اپنی ذمہ داریوں کوسمجھیں۔ مری حادثے کے دوران وزیراعلیٰ پنجاب میٹنگ میں مصروف تھے، جب انتظامیہ، افواج نے مری کو کلیئرکیا تو وزیراعلیٰ نے فضائی دورہ کیا، اگر ہمارا وزیراعظم، وزیراعلیٰ پنجاب عوام کا حقیقی نمائندہ ہوتے تو فورا مری پہنچتے۔انہوں نے کہا کہ نیا پاکستان تو مہنگا پاکستان بن گیا ہے،پیٹرول،بجلی ،گیس مہنگی ہو چکی ہیں، ایک چیز جو سستی ہوئی ملک کے عوام کا خون سستا ہوچکا ہے، سانحہ مری میں 23لوگ شہید ہو چکے ہیں، سانحہ مری کو بھولنے نہیں دیں گے، سپیکرسے اپیل کرتے ہیں سانحہ مری پرجوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔ وزیراعظم نے ٹویٹ میں لکھا کہ سیاحوں کو موسم کا پتا کرنا چاہیے تھا، اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ سانحہ مری پرجوڈیشل انکوائری کرائی جائے، سانحہ مری،ذمہ داران کے خلاف ایکشن لیا جائے، موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہمیں ایسے واقعات سے بچنے کے لیے بہترانتظامات کرنا ہوں گے۔پیپلزپارٹی کے سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ دعا ہے ایسے سانحے پر کبھی بات کرنے کا موقع نہ آئے، وزیراعظم کو ایوان میں سانحہ مری پر قوم سے بات کرنی چاہیے تھی، سانحہ مری غفلت کے باعث پیش آیا، حکومت پہلے ایکٹو ہوجاتی تو جانی نقصان نہ ہوتا،پیپلز پارٹی کے دور میں اس سے دس گنا زیادہ واقعات ہوئے، 2011 میں بدترین سیلاب آیا، پورا پاکستان متاثر ہوا، حکومت نے بروقت اپنا کردار ادا کیا، وزیرِ اعلی خود کہتے ہیں وہ سیکھ رہے ہیں، انہوں نے سیکھنے سیکھنے میں اتنی جانیں لے لیں، اس سیکھنے میں مزید کتنی جانیں چاہیں ان کو؟اب تو موسم سے متعلق پہلے ہی وارننگ مل جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ایٹمی قوت ہوتے ہوئے بھی ہم قوم کو برفباری سے نہیں بچا سکے، ہم باتیں بہت کرتے ہیں لیکن سنجیدہ نہیں ہیں، وزیراعظم اور پوری کابینہ کو اپنی غلطی سے عوام کو آگاہ کرنا چاہیے تھا، حکومت پارلیمنٹ کو اس کی حیثیت نہیں دے رہی، ذوالفقار کو پھانسی دی گئی لیکن انہوں نے پارلیمنٹ کی عزت کی، بینظیر نے جان دیدی لیکن پارلیمنٹ کی بالادستی پر سمجھوتہ نہیں کیا، پہلے دن سے پارلیمنٹ کو پارلیمنٹ نہیں سمجھا گیا، وزیراعظم نے ایوان میں جواب دینے کا وعدہ کیا وہ بدھ آج تک نہیں آیا۔جمعیت علماء اسلام(ف) کے پارلیمانی لیڈر مولانا اسعد محمود نے کہا کہ جمعیت علما ء اسلام (ف)نے فوری طور پر مری کے اندر اپنی تنظیم اور رضاکار تنظیم کو ہداہات جاری کیں کہ فوری طور پر پھنسے ہوئے لوگوں کو ریلیف پہنچانے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں، انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم خود یہاں موجود ہوتے اور قوم سے معافی مانگتے،حکومتی کارکردگی پر اعتراض کیا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان نے جو اقدامات کئے ہیں اس پہلے ان کی تاریخ ستر سالوں میں نہیں ملتی اور ہمارا وزیر اعظم دیوار کے پیچھے بھی دیکھ سکتا ہے، چاہیئے تو یہ تھا کہ کہ اپنی ذمہ داری کو قبول کرتے وہ بھی عوام کی طرح تبصرے کررہے ہیں، ہم سمجھتے ہیں ایسے واقعات جس میں براہ راست عوام متاثر ہوتے ہے اس حوالے سے ہمیں سنجیدگی غور بھی کرنا چاہیئے، مولانا اسعد محمود نے کہا کہ24گھنٹے بعد چیف منسٹر آیا ، جوڈیشل انکوائری بھی کی جائے اور اصل مجرم کو بھی سامنے لایا جائے ۔ رکن اسمبلی اسلم بھوتانی نے کہا کہ اس سانحے پر ہم سب تعزیت کرتے ہیں ،گودار اور تربت میں بھی کم تباہی نہیں ہوئی، وہاں کچے مکانات گر گئے ہیں، ضلع لسبیلہ میں لوگ بارشوں کی وجہ سے شہید ہوئے ہیں، بلوچستان حکومت کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ بڑے پیمانے پرریلیف کا کام کر سکے ، وفاقی حکومت کوئی پیکج دے جس سے جن لوگوں کے گھر تباہ ہوئے ہیں ان کی امداد ہوسکے، گوادرپرسب کو توجہ دینی چاہیئے، گودارکی وجہ سے ہی انویسٹمنٹ آتی ہے ان غریب لوگوں کا خیال رکھا جائے، وفاقی وزیر علی زیدی گوادر کا دورہ کریں اور وزیر اعظم کو رپورٹ دیں تاکہ لوگوں کی امداد ہو سکے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن اسمبلی آغا حسن بلوچ نے کہا کہ سانحہ مری کا واقعہ کا انتہائی دلخراش واقعہ ہے