کالم /بلاگز

نسبت کمال اللہ کی طرف

تحریر: یاسر خان بلوچ
‎@YasirKhanblouch
ذوالقرنین ایک ایسا حکمران تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے سلطنت حکومت اقتدار اور اسباب و وسائل کی فراوانی سے نوازا تھا ۔ آپ کے اقتدار اور سازوسامان کا رب تعالیٰ نے ان الفاظ میں تذکرہ فرمایا: ”ہم نے انہیں زمین پر اقتدار دیا اور ہر قسم کے وسائل مہیا کئے۔”
آپ مشرقی و مغربی ممالک کو فتح کرتے ہوئے ایک ایسے پہاڑی درّے پر پہنچے کہ جس کی دوسری طرف یاجوج اور ماجوج تھے وہاں کے لوگوں نے آپ سے ایک مطالبہ کیا ، جس کا ذکر رحمٰن نے یوں فرمایا: ” انہوں نے کہا: اے ذوالقرنین! بے شک یاجوج و ماجوج اس سرزمین میں فساد کرنے والے ہیں تو کیا ہم تیری کچھ آمدنی طے کر دیں اس شرط پر کہ تو ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار بنا دے۔
بادشاہ ذوالقرنین نفس پرست اور مال و دولت کا حریص نہیں تھا بلکہ اللہ تعالیٰ کو ماننے والا اور آخرت پر ایمان رکھنے والا مومن شخص تھا۔ اس نے جواباً کہا
جن چیزوں میں میرے رب نے مجھے اقتدار بخشا ہے وہ بہت بہتر ہے، اس لیے تم قوت کے ساتھ میری مدد کرو میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک موٹی دیوار بنا دوں۔ ذوالقرنین نے فوراً اپنی خدمات پیش کی اور تعمیراتی سامان مزدوروں سمیت طلب کیا اور فرمایا۔
تم میرے پاس لوہے کے بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ، یہاں تک کہ جب اس نے دونوں پہاڑوں کا درمیانی حصہ برابر کر دیا تو کہا: آگ تیز جلاؤ یہاں تک کہ اس نے اسے آگ بنا دیا تو کہا: لاؤ میرے پاس پگھلا ہوا تانبا میں اس کو اس پر انڈیل دوں۔
جب گرم چادروں پر پگھلا ہوا تانبا ڈالا گیا تو وہ ایسا لمبا مضبوط بند بن گیا کہ یا جوج ماجوج اس کو پار کرنے یا اس میں نقب زنی کرنے سے عاجز آگئے۔ حد درجہ مضبوط اور لمبی چوڑی دیوار قائم کردی اوراس عظیم کارنامے کو سرانجام دیکر اپنی زبان سے ایسا تاریخی جملہ کہا کہ ساری کوشش و محنت اور ہنر مندی کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کردی اور رب تعالیٰ نے اس پیارے جملے کا قرآن بنا کر حضرت محمدﷺ پر نازل فرمادیا۔
حضرت ذوالقرنین نے فرمایا
“یہ میرے رب کی رحمت ہے، پھر جب میرے رب کا وعدہ آگیا وہ اسے زمین کے برابر کر دے گا اور میرے رب کا وعدہ ہمیشہ سچا ہے۔
ان کے مثالی جواب سے تین باتیں سامنے آئیں۔
1۔ ہمیں نیکی، اچھائی اور احسان کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ اگراللہ نے ہمیں اس قدر مقام عطا فرمایا ہے کہ ہماری توجہ، سفارش یا راہ نمائی سے کسی غریب کا بھلا ہو سکتا تو ہمیں اول فرصت اس سے تعاون کرکے اللہ سے اپنا اجرلینا چاہیے۔ دوسری طرف کسی ساتھی، دوست یا قریبی کا کام کرنے سے پہلوتہی کرنا، جھوٹے وعدے دے کر اس کو پریشان کرنا یا کام کرنے کے لیے تکلفات کا مظاہرہ کرنا رشوت کا مطالبہ کرنا، ایسا کردار کسی دنیا دار کا تو ہو سکتا ہے باعمل مسلمان کا نہیں ہو سکتا۔
2۔ ۔نیکی کا کام سرانجام دیکر اپنی صلاحیتوں اور کارناموں کی داستان کھولنے کی بجائے، اس کو اللہ تعالیٰ کی توفیق کہ کر اسی کی طرف منسوب کر دینا چاہیے۔ اکثر دنیا دار تو درکنار دینی ذوق رکھنے والے معمولی سا کارنامہ انجام دے کر اکڑنا شروع کردیتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان سے کام لے لے وہ شکر، تواضع اور نسبت الی اللہ کی بجائے فخرو غرور اور گھمنڈ کا شکار ہو جاتے ہیں جبکہ ایسا کرنا عمل ضائع کرنے کے برابر ہے اورآج کل یہ ٹرینڈ بنا ہوا ہے کہ کوئی بھی اگر کسی غریب کی مدد کر دے تو سیلفی کے بہانے اس کی تذلیل کی جاتی ہے۔
3۔ اپنی مضبوط سے مضبوط بلڈنگ، کوٹھی اور بنگلے پر بھی نازاں نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے عارضی جانتے ہوئے، توجہ آخرت کی طرف کرنی چاہیے۔ آج کل لوگ پانچ یا بیس مرلہ کی کوٹھی بنا کر فکر آخرت سے بلکل غافل ہو جاتے ہیں اور ان کی ساری توجہ مکان، کوٹھی اور دکان تک ہی محدود رہتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker